• news

کچھ تحفظات دور ہاجائیں تو مولانا کے احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں : بلاول

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ میں صوبائی خود مختاری پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے بارے سیاسی جماعتوں سے رابطے جاری رکھیں گے۔ چیئرمین نیب وہی کرتے ہیں جیسا وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں۔ عمران خان جسے کہتے ہیں اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ میرا جو بھی راستہ ہو گا جمہوری اور آئینی ہو گا۔ جمہوریت پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حکومت نے کشمیر کی قیادت جیسی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ وزیراعظم کی توجہ کشمیر پر نہیں ہے۔ وہ کراچی اور سندھ کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میڈیا کورٹس کو مسترد اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ میڈیا کورٹس کے معاملے کی ہر فورم پر مخالفت کریں گے۔ سندھ میں صوبائی خود مختاری پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت یکطرفہ احتساب ہو رہا ہے۔ آصف زرداری کہتے رہے کہ معیشت اور نیب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہماری کور کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کیخلاف احتجاج کیلئے مشاورت کی گئی۔ بدھ کے روز پھر ایک سیاسی گرفتاری کی گئی۔ سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو گرفتار کیا گیا۔ نیب کا کالا قانون مشرف کا بنایا ہوا ہے۔ نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے بنایا گیا ہے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ حکومت نیب کے زور اور دباؤ پر چل رہی ہے۔ خورشید شاہ کو کشمیر پر حکومتی ناکامی سے توجہ ہٹانے کیلئے گرفتار کیا گیا۔ عمران خان کشمیر کاز کیلئے بوجھ ہیں۔ عمران کے نااہل ہونے کا نقصان کشمیر کاز کو پہنچ رہا ہے۔ عمران خان اپنے ملک میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ عمران خان کشمیریوں کے انسانی حقوق پر بات کیسے کریں گے۔ بہتر ہوتا سٹیک ہولڈرز یکجہتی کی طرف قدم اٹھاتے۔ وزیراعظم عمران خان نالائق اور نااہل ہیں۔ اگر آپ اپنے ملک کو لیڈ نہیں کر سکتے تو باہر جا کر کیا کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنا احتجاجی لائحہ عمل بنایا ہے۔ ہم اب اس حکومت کی نالائقی کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم مہنگائی سمیت عوامی ایشوز پر بات کریں گے۔ معاشی پروگرام ہی ملک کے مسائل کا حل ہے۔ حکومتی بجٹ غریب کیلئے تکلیف اور امیر کیلئے ریلیف ہے۔ اجلاس میں شہر اور علاقوں کی نشاندہی کی گئی جہاں احتجاج کریں گے۔ کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے نیب کے ذریعے ختم کرایا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ اکتوبر میں مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس کی حمایت کی ہے۔ مہنگائی اور معاشی صورتحال کی خرابی کو بنیاد بنا کر احتجاج کریں گے۔ حکومت کی معاشی پالیسی یہ ہے کہ 3 بجٹ آ چکے ہیں۔ عمران خان مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کیلئے کیسے آواز اٹھائیں گے۔ عمران خان اپنے ملک میں سیاسی مخالفین کو قید کر رہے ہیں۔ حکومت ہر بار جان بوجھ کر کشمیر کے معاملے پر اتفاق رائے کو سبوتاژ کرتی ہے۔ حکومت میں پرویز مشرف کا کیس اٹھانے کی ہمت نہیں۔ ہم یکساں بنیاد پر احتساب چاہتے ہیں‘ صرف سیاسی مخالفین کیخلاف نہیں۔ ہمارا احتجاج سندھ سے ہوتا ہوا پنجاب جائے گا۔ ہم اس حکومت کی نالائقی اور نااہلی برداشت نہیں کر سکتے۔ ساری اپوزیشن سے ہماری ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ مل کر کام کیا آگے بھی کرتے رہیں گے۔ مولانا کے اکتوبر کے دھرنے کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ قابل عمل حکمت عملی بنانے کے لئے مولانا کے پاس وفد بھیج رہا ہوں۔ ہر صورت جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ آئین کی بالادستی ہو۔ اٹھارویں ترمیم کا تحفظ اور اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام سرکاری اداروں کا احتساب ایک ہی طریقہ کار کے مطابق ہو۔ سوموٹو کے طریقہ کار پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ کچھ تحفظات دور ہو جائیں تو شاید مولانا کے احتجاج میں شامل ہو جائیں۔ بلاول بھٹو نے چارٹر آف ڈیمو کریسی نافذ کرنے اور 19ویں ترمیم ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ صدر نے الیکشن کشمن میں نئے ارکان لگانے کیلئے غیر قانونی کام کیا جس پر ان کا مواخذہ ہو سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن