’’ہمیں تو بس بہانہ چاہیے ‘‘
خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور اور پشاور میں بچیوں کے تحفظ کی خاطر سکولوں میں ’’عبایا یا چادر ‘‘کو لازمی قرار دیا گیا تھا، جس پر سوشل میڈیا میں ایک طوفان اٹھ کھڑاہوا،’’روشن خیال‘‘ لوگوں نے اسقدر تنقید کی کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا ۔ ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چلنے والی حکومت کو ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا ۔خیبر پی کے ایک مذہبی صوبہ ہے وہاں کے باسی ہمیشہ سے پابند’’ صوم صلوۃ‘‘ ہوتے ہیں جبکہ وہاں کی خواتین بھی پردے کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔ ضلع ہری پور کے محکمہ تعلیم نے لڑکیوں کے سیکنڈری، ہائیر سیکنڈری اور مڈل سکولوں میں عبایا یا چادر کو لازمی قرار دے دیا ہے اور سکولوں کو بھیجے گئے مراسلے کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ بچیاں کسی ’’غیر اخلاقی حرکت‘ ‘سے بچ سکیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سکولز جانے والی بچیوں کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے اگر محکمہ تعلیم نے مقامی روایات کے مطابق ایسا قدم اٹھا لیا تھا تو حکومت نے چند ’’روشن خیالوں‘‘ کی تنقید پر ’’پسپائی ‘‘کیوں اختیار کی؟خیبر پی کے صوبے اور ملک کی کچھ روایات ہیں اور ہم اپنے کلچر اور دین کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔اس لیے حکومت کو کسی کے دبائو میں نہیں آنا چاہیے ۔اسلام میں پردے کی خصوصی اہمیت ہے ، مرد وزن کو ستر پوشی کے ساتھ’’ شرم و حیا‘‘ کو بھی مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا یہی وجہ ہے کہ مرد کے لئے کسی بھی عورت پر دوسری نگاہ ڈالنا جائز نہیں، نبی کریم ﷺبھی بہت شرم وحیا والے تھے اور آپ ﷺنے دوسروں کو بھی اس کا درس دیا۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺکے ارشادات اور احکامات پر عمل پیرا ہونا ہی دین اسلام ہے جو مومنین اور مومنات کو حجاب یعنی پردے کے حوالے سے سختی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن پاک میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیںاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیںاور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے بہن، بھائیوں اور بچوں کے۔
خواتین کو مستورات بھی کہا جاتا ہے اور مستور کا مطلب ہے چھپا ہوا، عورت کے پردہ کے حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’حضرت عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے‘‘ جامع ترمذی،۔ عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔ ’حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ نفسا نفسی کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی آنکھوں میں حیا نہیں رہی، ہر طرف آوارگی اور بیہودگی کا دور دورہ ہے، ٹی وی، کیبل اور انٹرنیت وغیرہ پر غیر مذاہب یہود و نصاریٰ کی ثقافت نے ملت اسلامیہ پر عارضی طور پر غلبہ پا لیا ہے۔عبایا ایک ڈھیلا ڈھالا سا لباس ہے جو اصل لباس کے اوپر پردے کے لیے پہنا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ قدامت پسند سعودی عرب میں عبایا خواتین کا روایتی لباس ہے جسے عام طور پر باحیا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔خاتونِ اول خود باپردہ ہیں انھیں اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے ۔تاکہ ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں ریاست مدینہ کا عکس بن سکے ۔
پاکستان میںبنیادی طور پر غریب اور’’ پسماندہ ملک‘‘ ہے جو آزادی ملنے کے بعد سے’’ ترقی کی جدوجہد‘‘ میں مصروف ہے۔ لیکن ہماری ترقی کے تمام منصوبے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات زندگی کی اشیاء کی کمی وغیرہ کی وجہ سے پوری طرح عمل میں نہیں آ پاتے۔ جس ملک کی بیشتر آبادی کو دو وقت پیٹ بھرنے کو اناج نہ مل سکے وہاں پر سماجی ترقی اور تہذیب و تمدن کی بہتری کی باتیں کرنا ایک’’ کربناک مذاق‘‘ ہی معلوم ہوتی ہیں۔بہرحال ان مسائل کو دور کرنے کے لئے ملک کو بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں اور جی توڑ کر کوشش کرنا پڑیں۔ اس سلسلے میں جو اقدامات اور کوششیں کی گئیں ان میں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں ان منصوبوں کی ترقی کی رفتار دیکھ کر یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ جلد ہی ملک’’ خودکفالتی‘‘ کے راستے پر پوری طرح گامزن ہوجائے گا اور غریبی اور ’’بدحالی‘‘ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن دوسری طرف ملک کی آبادی بھی غیر معمولی رفتار سے بڑھتی گئی اور ملک کی خوشحالی کے راستے میں ایک’’ مہیب رکاوٹ‘‘ بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی۔ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہیے۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک طرف تو حکومت کے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ پاتے اور دوسرے ملک میں بے اطمینانی اور جگہ جگہ حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں جو تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان تخریبی کارروائیوں سے ملک کے امن و اطمینان میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ترقی کے منصوبے سست اور بے عمل ہو جاتے۔مہنگائی آج کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔موجودہ دور حکومت میں مہنگائی جس تیزی سے بڑھی ہے ، پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چند ماہ کے دوران مہنگائی بڑھنے سے غریب عوام کے ساتھ ساتھ متوسط اور سفید پوش گھرانے بھی براہ راست متاثر ہوئے ہیں خصوصاً خواتین جو گھر کو سنبھالنے کی ذمے دار ہیں ، آج کل مہنگائی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔جہاں یہ مشکلات ان کی زندگیوں سے سکون دور کر رہی ہیں ، وہیں ان کی صحت اور’’ ذہنی نشو و نما ‘‘پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔