قصور کے قصور واروں کا محاسبہ
کہنے کو تو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے قصور میں ہونے والے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک بیان دیا ہے جس سے ان کی اس معاملے کو حل کرنے کی نیک نیتی کا اظہار ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قصور کے واقعے پر سب کا محاسبہ ہو گا۔ وہ سارے محکمے اور لوگ جو عوام کے مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار ہیںاور جس جس نے اپنے فرائض سے کوتاہی کی ان سے سخت باز پرس ہوگی اور اقدامات کیے جائیں گے۔ پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کی طرف سے بھی پہلے ہی کچھ اقدامات کئے جارہے ہیں جن میں ڈی پی او قصور کو ہٹایا جا رہا ہے، ایس پی انویسٹی گیشن قصور خود کو قانون کے حوالے کر چکے ہیں اور چارج شیٹ کے بعد اُن کے خلاف کار روائی جاری ہے، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کیا جاچکا ہے، قصور پولیس کی از سرِنو صف بندی کی جارہی ہے اور ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تحقیقات کے لئے احکامات دئیے جا چکے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اِن اقدامات سے قصور میں پچھلے سات سال سے جاری یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ماضی میں بھی اسی طرح ایکشن لئے جاتے رہے ہیں اور سینئر پولیس افسروں کے تبادلے کر کے معاملے کی گرد پر وقتی طور پر ہمدردی کے چھڑکاؤ کا مظاہرہ کیا گیا مگر مستقل حل کی طرف توجہ نہ کی گئی۔
دو سال قبل سامنے آنے والا اور میڈیا کے ذریعے توجہ حاصل کرنے والا زینب کیس ایک بڑا کیس تھا جس نے قصور کے پچھلے تمام واقعات پر سے بھی گرد جھاڑ دی تھی تب یہ گمان تھا اور لوگوں نے تھوڑا سوچنا شروع کر دیا کہ شاید اب اُن تمام بے گناہ اور معصوم بچوں، جو ہوس کے پجاری ظالموں کی بھینٹ چڑھے، کو بھی انصاف ملے گا اور آئندہ اس حوالے سے کبھی کوئی ظلم کی داستان رقم نہیں ہوگی۔ بہت سخت ایکشن لیا گیا، پر یس کانفرنسیں ہوئیںلیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اب دوبارہ وہی عالم ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بچوں سے زیادتی کے فعل کے مرتکب گروہ تک پہنچا جائے اور حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ جب تک سزا کا اعلان نہیں کیا جائے گا ظالموں کی مکر وہ حرکتیں جاری رہیں گی۔ اخلاقیات اور دین سے یہ پہلے ہی دور ہوچکے ہیں۔ ضروری ہے کہ سزاؤں پر عملدرآمد کو سخت بنایا جائے۔ زینب کے قاتل کو جس طرح سولی پر لٹکایا گیا وہ ایک مثال تھی لیکن یہاں سارے قاتل نہیں پکڑے جاتے۔اگر زینب کی طرح تفتیشی عمل حرکت میں آئے تو کوئی نہ کوئی نشانی مجرم تک لے ہی جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ زینب کے قاتل کی طرح ہر قاتل کی تلاش کی جائے، معاملے کی جڑ تک پہنچا جائے تو پھر ہر قاتل لٹک سکتا ہے اور ہمارے بچے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
گزشتہ چار سالوں میں سات سو سے زیادہ بچوں کے ساتھ صرف ایک ضلع قصور میں جنسی زیادتی ہوئی اور بعد ازاں اذیت ناک طریقے سے ان کا قتل کر دیا گیا۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ 700 معصوم بچے اور ہر بچے پر بیتنے والی ظلم کی کہانی کو ذہن میں لائیں تو پھر آپ پر کھلے گا کہ ہمارا معاشرہ کس طرف چل نکلا ہے۔ ابھی تو یہ وہ تعداد ہے جو کہ رپورٹ ہوئی ہے ورنہ یہاں بے شمار واقعات ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر بچہ پاکستانی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ بچے جنہیں کھلونوں سے کھیلنا چاہیے تھا، جن کی معصوم مسکراہٹ زندگی کی نوید ہے وہ درندوں کی درندگی کے باعث اس دنیا سے چلے جائیں اور ان کی چیخیں بھی دبا دی جائیں تو اس معاشرے پر کیا قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ آئیے پاکستان کی ریاست سے بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ بطور شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے میں سرکار کی مدد کریں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی قصور کا دورہ کیا ہے مگر اب نتائج کے لئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ قاتلوں کو سامنے لانے اور سزائیں دینے کا وقت ہے۔ تب ہی محاسبے کا عمل شروع ہو گا۔
٭٭٭