• news
  • image

لندن میں کشمیریوں سے یکجہتی کی دوسری ریلی

یورپ ، امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مختلف ریلیوں اور ہر جمعہ کو ہائی کمشن میں KASHMIR HOUR کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے لندن میں سلسلہ وار نکالی اِن ریلیوں کی ایک بڑی کامیابی یہاں کے وہ ینگ گورے گوریاں بھی ہیں جنہیں کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کا اب بخوبی ادراک ہونے لگا ہے۔
پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے نکالی حالیہ تاریخی ریلی جس میں 12 ہزار سے زائد کشمیریوں، سکھوں، عیسائیوں، پاکستانیوں اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بھرپور شرکت کی۔ اس بات کا غماز تھی کہ نہتے کشمیریوں پر ڈھائے بھارتی مظالم اب پوری دنیا میں بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ریلی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈائوننگ سٹریٹ سے کیبنٹ آفس اور پھر STAND سے بھارتی ہائی کمشن کے سامنے جب پہنچی تو مقامی ٹریفک مفلوج ہو گئی۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے اس مرتبہ گھڑ پولیس، سٹی پولیس ، میٹرو پولیٹن پولیس ، ایم آئی فائیو اور ڈپلومیٹک پولیس کے دستوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ گوری مائیں اپنے ننھے بچوں کو ’’پرامز‘‘ میں سُلانے کے لیے چونکہ اسی مرکزی شاہراہ کو استعمال کر رہی تھیں اس لیے ان گوریوں کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور لے کر رہیں گے آزادی‘‘ کے نعروں کے مفہوم میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
30 سالہ پیٹریشا کا اصرار تھا کہ اسے میں 12 ہزار کے اس جلوس میں لگائے ان نعروں کے بارے میں بتائوں میں نے ا سے جب یہ بتایا کہ اس بھاری ریلی اور نعروں کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، ان کی ہوم لینڈ کی حیثیت کا خاتمہ، معصوم بچوں، خواتین ، معمر اور نوجوانوں پر بھارتی افواج کی طرف سے چوبیس گھنٹے پُرتشدد مظالم اور گزشتہ 2 ماہ سے کرفیو کے نفاذ کے خلاف مہذب دنیا کو بیدار کرنا ہے تو مسکراتی پیٹریشا کے چہرہ پر اچانک افسردگی کے اثار نمودار ہو گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہو اس نے بغیر کسی لگی لپٹی مودی سرکار اور بھارتی افواج کے مظالم کو BARBARIAN ACT قرار دیتے ہوئے انگریزی لہجے میں ’’لے کر رہیں گے آزادی‘‘ کا نعرہ لگا دیا جس سے گوری خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد ’’محفل زعفران‘‘ میں تبدیل ہو گئی…ارکان پارلیمنٹ میں روتھ سمتھ ، مسٹر گیرتھ سینل، مسٹر لائم بیسن سمیت سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ سے آئی متعدد سیاسی شخصیات نے دوران ریلی اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے مظلوم کشمیری خواتین اور بچوں پر بھارتی افواج کے وحشیانہ تشدد، خواتین کی عصمت دری اور 60 دن سے جاری کرفیو کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقواممتحدہ کو فوری نوٹس لینے کامطالبہ کیا۔ ‘‘ رتھ سمتھ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین اور بچوں پر ڈھائے بھارتی مظالم کو وہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جنوری 1948ء کی وہ قرارداد جس میں بھارت نے کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی غیر جانبدارنہ استصواب رائے کرانے کی تحریر موجود ہے۔ اقوام متحدہ اس پر عمل کروائے ریلی کا اختتام چونکہ بھارتی ہائی کمشن کے سامنے ہونا تھا اس لیے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے 2 بجکر 30 منٹ پر مظاہرین جب بھارتی ہائی کمشن کی عمارت کے سامنے پہنچے تو بھارتی سفارتی عملے نے اپنے دفتر کی کھڑکیوں سے ویڈیو فلم بنانے کے پہلے ہی انتظامات کر رکھے تھے تاکہ پُرامن مظاہرین کو مشتعل کیا جا سکے۔
بھارتی ہائی کمشن کی یہ مکارانہ چال تھی کہ مظاہرہ میں اچانک شامل ہونے والے بعض شرپسند عناصر نے بھارتی ہائی کمشن کی ان کھڑکیوں کے شیشے توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پُرامن مظاہرہ کوناخوشگوار بنانا چاہا مگر پولیس کے بروقت اقدام نے اس پرامن مظاہرہ کو سبوتاژ ہونے سے بچا لیا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ شیشے توڑنے والے یہ لوگ کون تھے؟ ذرائع نے بتایا کہ بنیادی ور پر R.S.S اور ’’را‘‘ کے بعض مقامی ایجنٹوں کو کشمیریوں سے یکجہتی کے لبادہ میں ریلی میں شامل کروا دیا گیا تھا تاکہ یہ پراپیگنڈہ کیا جا سکے کہ کھڑکیاں توڑنے والے کشمیری ماظہرین تھے…کشمیریوں سے یکجہتی کے گزشتہ پرامن مظاہرہ میں لندن کے ایک ایشیائی ریڈیو کے کٹر بھارتی پریزنٹر کے کرتوت ’’میں چونکہ قریب سے دیکھ چکا تھا اس لیے اس بار مجھے ’’را‘‘ اور آر ۔ ایس ۔ ایس کے ایجنٹوں کا کھوج لگانے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی!
دوسری جانب ملک کے ممتاز عسکری تجزیہ نگار سابق کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ تھے۔ جنرل صاحب سے عسکری امور پر چونکہ باالعموم گفتگو جاری رہتی ہے اس لیے ہمارا ٹیلیفونک وقت طے نہیں ہوتا۔ وقت ضائع کیے بغیر میں نے ایک ہی سانس میں کشمیر کے حوالہ سے ان سے کئی سوال کر ڈالے…وہ چپ رہے…وہ ہس دئیے…منظور تھا شاید پردہ میرا…؟؟ بتانے لگے کہ شاہین میزائل کی رفتار اتنی ہے کہ تل ایبیب آسانی سے رینج میں آ جاتا ہے…مگر انہیں شکوہ تھا کہ قارئین اور عسکری معلومات رکھنے والے بعض افراد کئی مرتبہ خبر کے سباق و سباق کا درست ادراک نہیں کرتے جس سے کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن