• news
  • image

کرکٹرز کو قیدی کیوں بنایا جا رہا ہے؟؟؟؟

کیا بات ہے، کیا پیشہ وارانہ مہارت ہے اور کیا اعلی سوچ ہے۔ ایسی ایسی خبریں ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر کے نام پر جو کچھ ان دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ میں ہو رہا ہے۔ لکھنے والے لکھتے جا رہے ہیں، کرکٹرز کو سامنے دلدل نظر آ رہی ہے تو پیچھے کھائی ہے۔ وہ کہیں بھی جائے گا پھنسے گا۔ اب خبر نکلی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ریٹینر شپ کنٹریکٹ میں کرکٹرز کہیں دوسری جگہ ملازمت نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹرز کو ماہانہ پچاس ہزار روپے دے گا اور ان پچاس ہزار میں انہیں گذر بسر کرنا ہو گی۔ وہ کسی دوسری جگہ ملازمت نہیں کر سکیں گے۔ چونکہ کئی کرکٹرز کے محکموں کے ساتھ معاہدے ہیں اور انہیں وہاں سے معقول تنخواہیں ملتی ہیں اس لیے کرکٹرز نے اس شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
کیا پچاس ہزار ماہانہ میں کوئی کھلاڑی کاروبار زندگی چلا سکتا ہے۔ ایک طرف کرکٹرز کی کمائی سے بورڈ میں اعلی عہدوں پر ملازمتیں حاصل کرنے والوں کی ماہانہ تنخواہیں ملینز میں ہیں تو دوسری طرف جو کمانے والے ہیں ان کی کمائی کے ذرائع محدود کیے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں اعلی عہدوں پر بیٹھے افراد کے علاوہ کسی کے لیے مہنگائی نہیں ہوئی، کسی کو پیسے کی ضرورت نہیں ہے، کسی کے بچے سکول نہیں جاتے، کسی کے بہن بھائی والدین نہیں ہیں جو ان کے روزگار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فیصلے کرنے والے وہ ہیں جنہیں کرکٹ بورڈ نے استعمال کے لیے گاڑی بھی دے رکھی ہے لیکن پھر بھی وہ دفتری اوقات میں وہ فراہم کردہ کار استعمال کرنے کے بجائے پٹرول کی بچت کرنے کے لیے بورڈ کی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف بچت کی یہ سوچ ہے تو دوسری طرف کرکٹرز کی کمائی کو ہر طرف سے روکا جا رہا ہے۔
جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں کے نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔ جیسا کہ نئے آئین میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی شق رکھی گئی ہے۔ خیالی پلاؤ پکاتے پکاتے میدان میں آئے ہیں تو اندازہ ہونے لگا ہے کہ اس کے راستے میں کیا رکاوٹیں ہیں اور اس پر عمل کرنے سے کیا مسائل۔پیدا ہو سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈومیسٹک کرکٹرز کو رینٹیر شپ کنٹریکٹ دیتے وقت انہیں قیدی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ صاحب جو قانونی شعبے کے معاملات کو دیکھتے ہیں ان کے لیے قانون صرف وہی ہے جس سے تین چار یا پانچ چھ بڑوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ ان کی بقا بھی اسی میں ہے کہ باس کو بچایا جائے باقی کوئی بچے یا نہ بچے۔ اس کنٹریکٹ کو بناتے ہوئے ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے علم میں نہیں تھا کہ کھلاڑیوں کے لیے پچاس ہزار ماہانہ میں گذارہ ناممکن ہو گا ان کا روزگار چلتا رہنا ضروری ہے، کیا وہ نہیں جانتے کہ بورڈ اپنے پسندیدہ افراد کو تو خود دو دو نوکریوں کی اجازت دیتا ہے پھر کرکٹرز پر اتنی سختی کیوں کی جا رہی ہے۔
لکھتے لکھتے فون آیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس شق کو ختم کرنے پر غور کر رہا ہے، یا ختم کرنے فیصلہ کر لیا ہے، کنٹریکٹ میں ترمیم کر کے دوبارہ کھلاڑیوں کو پیش کیا جائے گا۔اچھا تو اسے پیشہ وارانہ مہارت کہا جاتا ہے۔ کھلاڑی بری کارکردگی پر ڈراپ ہوتا ہے، کوچ کا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے، سلیکشن کمیٹی ختم ہو جاتی ہے، معیاری کرکٹرز پیدا کرنے میں ناکامی پر ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام بدل دیا جاتا ہے لیکن پی سی بی کے لاڈلے افسران چاہے جتنی مرضی غلطیاں کر لیں وہ اپنے عہدوں پر موجود رہتے ہیں۔ ان کی کارکردگی کا احتساب کون کرتا ہے، کیا ان کا بھی احتساب ہوتا ہے، کیا یہ دو ملین سے زیادہ ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے امپورٹڈ چیف ایگزیکٹو آفیسر کی غلطی شمار نہیں ہو گی؟؟؟؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن