• news
  • image

عالمی برادری کی بے حسی اور مسئلہ کشمیر

ساٹھ کی دہائی میں رچرڈ ہالیرن کی کتاب نے تحقیق کے بعد جن محرکات کو اُجاگر کیا ان میں ایک بات تو یہ بھی تھی کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ تمام امت مسلمہ اپنے اندر موجود سیاسی خلفشار اور آپس میں کشمکش اور انتشار کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اسکا جواب اس نے یہ تلاش کیا جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد اور روح محمدؐ موجود ہے ان کو کمزور کرنا ناممکن ہے۔ اہل مغرب نے ان جذبات پر یلغار کا سلسلہ یوں شروع کیا کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو دہشت گردی کی طرف موڑ دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر حملوں کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ عمران خان نے نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے اسی موقف کو دہرایا کہ مغربی دنیا اس اسلامو فوبیا کا شکار ہے جس کے تحت ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انڈیا کی تاریخ دہشت گردی سے لبریز ہے۔ اس موقع پر طیب اردگان نے بھی کہا کہ ہندوستان میں گائے ذبح کرنے پر مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے قتل سے لیکر ان کے گھروں کو جلانے اور کشمیر میں مسلسل کرفیو کے باعث پیدا ہونیوالی صورتحال سے عالمی برادری کیوں خاموش ہے۔ سب کا جواب عمران خان نے کچھ اس طرح دیا کہ اگر کشمیریوں کی بجائے یہی اسی لاکھ یورپین ہوتے تو آج جنوبی دنیا اور ان کی تنظیموں کا ردعمل کچھ اور ہوتا۔ عمران خان کی جرأت اور بے باکی نے جہاں ایک تاریخ رقم کی ہے وہاں انہوں نے فرنٹ فٹ پر آکر کھیلا ہے اور کشمیر کے مسئلہ کو پوری دنیا کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمزور پاکستان کشمیر کے بارے میں عالمی برادری کی پالیسی تبدیل کر پائے گا جہاں ان ممالک کے معاشی مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بڑے فیصلے قوموں کے اندر اتحاد اور یکجہتی سے جڑے ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ حزب اختلاف حکومت کو جنوری تک گھر بھیجنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ اس وقت جبکہ ہم تاریخ کے ایک نازک دور سے گذر رہے ہیں اور سالہا سال سے ظلم و ستم کا شکار کشمیری عوام کی بقا اور حق خوداریت کے مسئلہ کو جس تیزی سے عالمی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے ہمیں اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مسئلہ کشمیر تو اتنے وسیع پیمانے کبھی نہیں اٹھایا گیا۔ بات احتجاج‘ تنبیہ اور مذمت پر آکر ختم ہو جاتی رہی ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے کہ ایک بھارت صحافی نے لکھا کہ کشمیر ایک قید خانہ بن گیا ہے۔ عمران خان نے اس عندیہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ کشمیر میں اتنا ظلم ہو رہا ہے اور ہماری بات نہیں سنی جا رہی ہے۔ اسکی اصل وجوہات انٹرنیشنل کمیونٹی کے وہ مفادات ہیں جو بھارت سے جڑے ہوئے ہیں جس کو سادہ زبان میں مادیت پرستی‘ لہو پرستی اور مفاد پرستی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک اور ایک نیو کلیئر پاور ہے۔ اسلام فوبیا کی آواز اٹھانے والے ممالک کبھی مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے۔ لہٰذا جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور ظلم کا شکار ہیں وہاں انکے مسائل کا حل تو درکنار ان کی آواز بھی نہیں سنی جا رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ جہاں آپس میں متحد نہیں ہے وہاں کمزور لیڈر شپ نے مغربی طاقتوں کو حاوی ہونے کا موقع دیا ہے۔ ٹوائن بی کا مقولہ ہے کہ قومیں معاشرے اور جماعتیں عقیدے اور نظرئیے کی بنا پر نشوونما پاتی ہیں۔ کمزور عقیدے اور نظریات کی حامل قومیں وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہود ہنود نصاری جب بھی مسلمانوں کیخلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ یہ جذبہ جہاد ہی ہے جس کی بدولت انکے گروہوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمران خان نے بھی اس موقف پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلامو فوبیا کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے۔ انڈیا کے یکے بعد دیگر لے آنیوالے تین آرمی اسٹاف نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو عالمی برادری کو یہ تاثر دیا گیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور دوسرے یہ کہ ہر آنیوالے حکمران کو یہ درس دیا ہے کہ وہ ٹریڈ کے مفادات کا چورن بیچتے رہیں۔ جس کا نتیجہ نکلا ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ بھارت کا جارحانہ رویہ کرفیو اور شق 370 تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ آگے گلگت اور بلتستان کی طرف بھی بڑھنا چاہتا ہے اور اگر اس صورت میں بھارت کوئی جارحانہ کارروائی کرتا ہے تو پاکستان کے پاس اپنی بقا اور سالمیت کیلئے موثر جواب دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جنرل اسمبلی میں بھی خطاب کے ذریعہ عمران خان اس مسئلہ کی گہرائی کو اقوام عالم کے سامنے رکھ کر عالمی دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی کی صورت میں کسی قسم کی جنگ پوری دنیا کیلئے تباہی اور نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن