• news
  • image

قصور میں بے قصور معصوموں کا قتل!!

قصور میں اب پھر تین معصوم بچوں کی لاشیں ملی ہیں جنہیںزیادتی کے بعد قتل کر د یا گیا۔ حالیہ چار سالوں میں قصور میں تقریباً 824 بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ صرف لاہور میں 127 بچوں کے ساتھ زیادتی ہو چکی ہے۔ ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہم مسلمان بھی ہیں ، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ معصوم ننھے بچوں کے ساتھ ایسی درندگی اور پھر ان کا قتل کر د ینا کتنا سنگین جُرم ہے کبھی ہم نے سوچا ہے؟ ہمارا ’’اسلامی معاشرہ‘‘ مہذب کہلانے کا حقدار ہے؟ ریاست اور قانون کے رکھوالے کہاں ہیں؟ کیا ملک کے حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض ایمانداری سے نبھا رہے ہیں؟ بلاشبہ حکمران اور سب ادارے اللہ تعالیٰ کو بھی جوابدہ ہیں۔ زینب نامی معصوم بچی کے قاتل کو پھانسی دی گئی۔ اس کے اہل خانہ کا مطالبہ تھا کہ سرعام پھانسی دی جائے اگر ایسا ہوتا تو سب درندوں کو عبرت حاصل ہوتی۔ اُن والدین سے پوچھا جائے جن کے بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اور قتل کر د ئیے جاتے ہیں۔ اُن کے دلوں پر کیا گزرتی ہے؟ ہمارے ہاں سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پولیس کی ’’مہربانی‘‘ سے بڑے بڑے خوفناک مجرم باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ حالیہ دو ہفتوں میں پولیس نے دوران تفتیش کئی افراد کو مار دیا ہے ۔ اگر میڈیا پر بات آ گئی تو ایک دو افسران کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ بات بگڑی تو مذکورہ افسران کے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔ پھر چند روز بعد نئے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ سزا کس کو دی جاتی ہے؟ سانحہ ماڈل ٹائون میں چودہ معصوم لوگ مارے گئے۔ آج تک معاملہ J.i.T میں گھوم رہا ہے۔ ساہیوال میں واقعہ ہوا۔ سرکار کو علم ہے کس نے کس کو مارا پھر J.i.T اور شناخت پریڈ وغیرہ وغیرہ؟ اشرافیہ اور غُربا کی تفتیش کا فرق ملاحظہ کیجئے۔ نیب میں ’’اشرافیہ‘‘ کی تفتیش کس قدر ’’شفقت‘‘ سے کی جاتی ہے کہ ملزم چیخ چیخ کر خود کہتا ہے کہ میرا ریمانڈ ایک ہی بار 90 روز کا لے لیا جائے اور نیب اپنے ’’اشرافیہ ملزموں‘‘ کو عید پر سپیشل کھانے بھی کھلاتا ہے، نیب والے اشرافیہ کو جب بھی عدالتوں میں پیشی پر لے کے آتے ہیں تو مذکورہ ’’ملزموں‘‘ کے چہروں سے خوشی ٹپکتی ہے اور ملزم روسٹرم میں آ کر جج صاحب سے کہتا ہے کہ جناب میرا ریمانڈ ایک ہی بار 90 روز کا د ے دیں؟ دوسری طرف پولیس جب ذہنی معذور صلاح الدین کو پکڑتی ہے تو ذہنی معذور ہونے کے باوجود اسے تشدد کے دوران مار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ روز آخرت ذہنی معذور سے اللہ تعالیٰ بھی بازپرس نہیں کرے گا۔ پھر صلاح الدین کی ہلاکت پر تفتیش کا آغاز ہوتا ہے اور بس۔ پولیس کے اچھے کاموں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر عام غریب شہریوں پر پولیس کے مظالم بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اگر غریبوں کو تحریک انصاف کی حکومت سے بھی انصاف نہ ملا تو؟ بہرحال پولیس والوں کو اپنے افسران اور حکمرانوں کا خوف اگر نہ بھی ہو تو روز آخرت پر سب کا ایمان ہے۔ 6فٹ لمبی قبر کو تو قطعاً نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ موت اٹل حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہر کسی نے جوابدہ بھی ہونا ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتیاں کب تک ہوتی رہیں گی۔ حکومت نے قانون سازی کی ہے؟ ایسے درندوں کی سخت سے سخت سزا تجویز ہونی چاہئے۔ جب سزائیں نہیں ہوں گی تو جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مانتے ہیں مگر ان کی ایک نہیں مانتے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے‘‘ والا قانون یہاں نافذ ہو جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ ہم سزائیں دینے کیلئے اسلام کی تعلیمات سے رجوع نہیں کرتے بلکہ یورپی یونین کی مانتے ہیں۔ وجہ یہ کہ معاشی خود کفیل 72سال میں ہم نہیں ہو سکے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم اگلے 70سال میں بھی خود کفیل ہو سکیں۔ ہاں کرپشن بددیانتی‘ میں ہم ضرور خود کفیل ہیں۔ ہمارے ہاں کھربوں کی کرپشن کرنے والے بھی عدم ثبوت کی بنا پر عدالتوں سے بچ جاتے ہیں۔ غریب آدمی اچھا وکیل نہ میسر ہونے کے باعث سزا کا مستوجب ہو جاتا ہے۔ خود کفیل ہونے کیلئے کرپشن کی سزا ’’پھانسی‘‘ ہونی چاہئے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ معصوم بچوں کو درندگی اور قتل سے بچانے کیلئے حکومت کو فوری عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور ہمارے پولیس بھائیوں کو کسی دنیاوی ستائش کیلئے نہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کیلئے ایمانداری سے بلا تفریق امیر و غریب مظلوموں کی داد رسی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے کئے جانے والے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملتا ہے۔ کشمیری ہمارے بہن بھائیوں اور ان کے معصوم بچوں کو تو مودی نے کئی ہفتوں سے گھروں میں بند کر رکھا ہے تو کیا یہاں ایک آزاد اسلامی ریاست میں بھی مائیں اپنے بچوں کو گھروں میں قید کر دیں اور باہر نہ نکلنے دیں کہ کہیں کوئی ’’درندہ‘‘ ان کو پکڑ نہ لے۔ ایسا نہیں ہے معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ملزموں کو فوراً سرعام سزائیں دینا ہوں گی۔ پھر یہ معاشرہ بچوں کیلئے محفوظ کہلانے کا حقدار ہو گا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوراً حرکت میں آنا ہوگا اور کوئی مستقل دیرپا اس ’’درندگی‘‘ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن