آرمی چیف کا قبائلی عوام کو صائب مشورہ
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع میران شاہ کے دورے کے دوران قبائلی عمائدین سے ملاقات اور خطاب میں کہا کہ وہ اور قبائلی عوام دہشت گردوں کے سہولت و معاونت کاروں سے ہوشیار رہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل سے دہشت گردوں کی آمدورفت کم ہوئی ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ پاکستان میں دیرپا امن افغان امن سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں سہولت کاروں کی معاونت سے اور انکے ایجنڈے کے تحت ہی ہوتی ہیں۔ خودکش بمباروں کو ہمیشہ مقامی سہولت کاروں کی معاونت حاصل رہی ہے کیونکہ اجنبی سرزمین پر رہبر کے بغیر کارروائیاں ممکن ہی نہیں ہوتیں۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ سہولت و معاونت کار بھارت کو ہمارے اندر سے ہی دستیاب ہوجاتے ہیں جو دہلی اور کابل انتظامیہ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کیلئے اہم کردار ادا کررہا ہے‘ ہم جتنا پاکستان میں امن کے خواہشمند ہیں اتنا ہی افغانستان میں بھی امن کے متمنی ہیں اور یہ ہدف قبائلی عوام اور عمائدین کے بھرپور تعاون سے ہی ممکن ہے۔ عمائدین اور قبائلی عوام اپنی صفوں میں چھپے دشمن کے ایجنٹوں کو بے نقاب کریں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں حکام کی مدد کریں۔ دہشت گردوں کے یہ سہولت اور معاونت کار پاکستان کے عوام‘ جن میں قبائلی بھی شامل ہیں‘ اور افغان عوام کے دشمن ہیں۔ آرمی چیف نے بالکل درست کہا ہے کہ عمائدین اپنے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہیں‘ بزرگوں کا تجربہ اور دانش اور نوجوانوں کی صلاحیتیں اور انکی توانائی کامیابی کا فارمولا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز نے انتھک جدوجہد سے دہشت گردی کا قلع قمع کیا ہے۔ پاک فوج کیلئے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ختم کرنا مشکل نہیں‘ لیکن فوج کو احساس ہے کہ اس سے عام شہری متاثر ہونگے۔ آرمی چیف کا عمائدین اور قبائلی عوام کو یہ مشورہ بڑا صائب ہے کہ اگر وہ خود اس ایشو پر توجہ دیں تو بغیر کسی بڑے نقصان کے ان انسانیت دشمن گروہوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اکادکا دہشت گردوں پر نظر رکھ کر انکے عزائم مکمل ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ اول تو جب دہلی اور کابل انتظامیہ کے ایجنٹوں کو یہ علم ہو جائیگا کہ اب ان کو سہولتیں بہم پہنچانے اور ٹارگٹ تک پہنچانے والا کوئی نہیں رہا‘ تو وہ خود ہی علاقے سے نکلنے پر مجبور ہو جائینگے۔