مقبوضہ کشمیر میں انتخابات نہیں ، حق خود ارادیت مطالبہ ہے
اقوامتحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ولولہ انگیز اور ’’دبنگ ‘‘ خطاب علاقے کی صورتحال ، کشمیر کے مظالم ، اور ان معاملات پر عالمی اداروں ، حکومتوں کی بے حثی وقت کی اہم ضرورت تھا ، جسے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بخوبی نبھایا۔اگر یوںکہا جائے تو بہتر ہوگا کہ بھارتی بے حسی اور پروپیگنڈہ کو چارو ں شانے چت کردیا ۔مگر بھارت اپنے حجم اور بے حسی کی وجہ سے کشمیر میں مظالم کے حوالے سے ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ اور وہ ایسا کرتا رہے گا ، اسلئے پاکستان کیلئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ بھی اپنی موجودہ حالات میں عالمی عدم تعاون کی وجہ سے ناتواںآواز اٹھاتا رہے ۔ پاکستان کے موقف کی تائید کشمیری عوام کی جدوجہد کررہی ہے ۔ نیز انسانی حقوق کے ادارے کم از کم انسانی حقوق کے حوالے سے آواز بلند کئے ہوئے ہیں ، جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری بنتی تھی اور ہے کہ جو مسئلہ اسکی فائلوں میں عشروں سے موجود ہے اور بھارتی ہٹ دھرمی اپنی قبول کی ہی قراردادوں پر قدم اٹھانے کو تیار نہیں ، بھارت پر ہمت دکھا کر اقتصادی پابندیاں عائد کرے ۔ ہندوستان کی تمام کارستانیوں کے ہمراہ سب سے زیادہ تعاون وہاں کے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے ، بھارت اور امریکہ کے تجارتی اور سرمایہ کاری کو اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ کا مودی کے انتخابی جلسے میں ہیوسٹن جانا بنتا ہے ۔ افسوس ناک پہلو ہمارے لئے یہ ہے کہ پاکستان کے نام نہاد تعلیم یافتہ سیاست داناورمیڈیا عوام میں اس انتخابی جلسے پر مایوسی کا اظہار کرتے رہے کہ امریکہ مودی کے ساتھ ہے ۔ دراصل امریکہ کسی کے ساتھ بھی نہیں ۔ کشمیر پر حکومت پاکستان کا دبائو بھی ٹرمپ کو اس بات پر مجبور نہ کرسکا کہ وہ کشمیر میں بھارتی ہٹ دھرمی پر کوئی واضح موقف اختیا ر کرے اور اب یہ بحث کررہے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں میںکس کا خطاب اچھا تھا ، اس لاحاصل بحث میں حکومتی وزراء اور عہدیدار بھی شامل ہیں ۔ دنیا امریکہ کو ایک بڑی طاقت تسلیم کرتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ جو چاہے دنیا میں کرسکتا ہے ، مگر آج تک جہاں جہاں مسلمانوں کی بات آئی چاہے فلسطین ہو ، چاہئے کشمیر ،چاہئے روہنگیا‘ امریکہ ، بہرا اور گونگا ہوجاتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تمام تر توانائی استعمال کی امریکی صدر کو اپنے موقف کے ساتھ ملانے کی انکی کوشش جو اچھی تھی ۔ پاکستان کی سابقہ قیادتوں چاہے ذردای ہو ں ۔میاں نواز شریف ، بے نظیر ہوں جب جب موقع ملا ہے جنرل اسمبلی سے خطاب کا مرکزی موضوع کشمیر ہی رہا ہے کسی بھی پاکستانی حکمران کی یہ ہمت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ کشمیر کی حق خود ارادیت اور بھارتی تسلط پر آواز بلند نہ کرے ۔ آ ج کشمیر پر آواز اور کوششوں کی یہ بلندی کشمیری عوام کی قربانیوں اور بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کی کوشش ہے ۔وزیر اعظم عمران خان سے ٹرمپ کے ہمراہ دو ملاقاتوںمیں کشمیر ہی مرکزی موضوع رہا جہاں ٹرمپ اپنے روائتی ہنسی مذاق میں مشترکہ ملاقات میں صحافیوں کے جواب دیتے رہے اور بقول شخصے کشمیر پر اپنے دو ٹوک موقف کا اظہار ماسوائے اسکے نہ کیا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اگر دونوں فریق تیار ہوں۔ کشمیر کے متعلق امریکہ موقف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ کے ایلس ویلس نے کشمیر میں کرفیو ہٹانے کی بات کی ، حالات معمول پر لانے کی بات کی ، باہمی مذاکرات کی بات کی ، مگر نہ کی تو بھارت کے 5 اگست کے اقدام کے خلاف کوئی بات نہ کی اور سب سے اہم یہ کہ حق خود ارادیت کی بات نہیں کی بلکہ کشمیر میں انتخابات کی بات کی جو ایک سازشی انداز ہے جو پاکستان اور کشمیر کو کبھی قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اصل مطالبہ حق خود ارادیت کا ہے۔افسوسناک پہلو یہ ہے ایلسن ویلس کے بیان کو پورے پیرائے میں ہماری ’’تعلیم یافتہ میڈیا ‘‘ اور حکومتی اہل کاروںنے نہیں دیکھا اور شروع کے آدھے بیان جس میں کرفیو ہٹانے کی بات کی گئی اسپر بغلیں بجانا شروع کردیں ۔ اب ضرورت ہے جو ماحول بین الاقوامی طور پر کسی حد تک کشمیر کی آواز کو دنیا بھر تک پہنچانے کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے بنایا ہے اسے نہائت غور و حوض اور سمجھداری سے جاری رکھاجائے تاکہ کشمیر عوام کی بھر پور حمائت ہوسکے ، یہ بیانات بچکانہ ہیں جو پی پی پی کی طرف سے آئے کہ کشمیر پر اپنا موقف مکمل طور پر وزیر اعظم نے بیان نہیں کیا یہ صرف مخالفت برائے مخالفت کی بناء پر ہے ۔ آئندہ آنیوالے وقت میں شائد ٹرمپ جو خود اب ڈیموکریٹ کے یوکرین صدر کے معاملے پر گھیرے میں آچکے ہیں۔ شائد کوئی ثالثی نہ کرسکیں۔ کشمیر پر مودی کی مجرمانہ خاموشی ہے اسلئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں نہ صرف کشمیر بلکہ پورے عالم اسلام کے معاملات ، اسلامی فوبیا ء کی تشریح کی ہے دہشت گردی اور ظلم کیخلاف آواز اٹھانے میںفرق واضح کیا ہے وہ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم OIC کو سعودی عرب اور دیگر حمائتی ممالک کیساتھ ملکر مضبوط کریں اور تقریر میں اٹھائے گئے تمام نکات جن پر OIC کے ایجنڈے پر آسکتے ہیں پر سرگرمی کا مظاہرہ کریں تاکہ جنرل اسمبلی کی تقریر صرف تقریر نہ رہ جائے ۔