ساٹھ روز، گنتے جائیں شرماتے جائیں!!!!!
آج ہمارے کشمیری بہن، بھائیوں، بزرگوں اور بچوں کو قید ہوئے ساٹھ روز ہو چکے ہیں۔ جانے کس حال میں ہوں گے، جانے کس مصیبت میں ہوں گے، جانے کس تکلیف میں ہوں گے، جانے کس بے چینی میں ہوں گے، جانے کھانا ملتا ہو گا یا نہیں، پانی پیتے ہوں گے یا نہیں، اکٹھے بیٹھتے ہوں گے یا نہیں، دوائی ملتی ہو گی یا نہیں، بچوں کو دودھ ملتا ہو گا یا نہیں، بزرگوں کو بھی گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ملتی ہو گی یا نہیں، چولہے جلتے ہوں گے یا نہیں، ہنڈیا پکتی ہو گی یا نہیں۔ کون جانے ایک اللہ کو ماننے والوں پر کیا بیت رہی ہو گی، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننے والوں کو کن تکالیف کا سامنا ہو گا، کون جانے کہ انہیں کلمہ طیبہ پر قائم رہنے کی کیا سزا مل رہی ہو گی، کیسی سزا دی جا رہی ہو گی۔ ہم عام حالات میں بھی اپنے گھر میں چند دن بند رہیں تو جینا محال ہو جاتا ہے۔ یہ عام حالات ہوتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں، خاندان کے تمام افراد موجود ہوتے ہیں، رابطے کے تمام ذرائع بحال ہوتے ہیں، معلومات کے تمام ذرائع دسترس میں ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہے، ٹی وی ہوتا ہے، موبائل کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ آزادی کی نعمت ہوتی ہے ان تمام سہولیات کے باوجود ہم چند دن میں کتا جاتے ہیں۔ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ ہم باہر نکلتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں۔ تب جا کر طبیعت بحال ہوتی ہے۔ اپنے معمولات پر غور کریں اور پھر دیکھیں کہ ہمارے کشمیری بہن بھائی ساٹھ روز سے ناصرف اپنے ہی گھروں میں قید ہیں بلکہ انہیں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا بھی سامنا ہے۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہے پیلٹ گنوں کی فائرنگ ہے، گھر گھر تلاشی ہے اور اشیائے خوردونوش کی قلت ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں اور مستقبل خطرات میں گھر ہوا ہے ان حالات میں اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ انسان کی قوت فیصلہ کم ہو جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ، ادویات کی عدم فراہمی اور تعلیمی اداروں کا بند ہونا اپنی جگہ ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن جو ذہنی اذیت کشمیریوں کو دی جا رہی ہے وہ بہت زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ آج ساٹھ روز مکمل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کر آئے ہیں، دنیا کے سامنے اسی لاکھ انسانوں کی قید کرنے کا مسئلہ عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے، بھارت کے وزیراعظم کے مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کو دلائل کے ساتھ دنیاکے سامنے رکھا ہے اس کے باوجود آج تک کوئی اہم پیشرفت نہیں ہو سکی۔ ماسوائے اس کے کہ وفود آئیں یا جائیں، تشویش لاحق ہو جائے، مذمتی بیان آ جائے، امریکہ میں لوگ پریشان ہو جائیں، امریکن سینٹرز۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ دیں یا پھر یورپی یونین میں بات چیت ہو جائے اس سے بڑھ کر تو کچھ نہیں ہوا۔ یہی سلسلہ 60 ویں روز بھی آگے بڑھا ہے۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی برائے ایشیا کے چیئرمین کہتے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کا اجلاس بائیس اکتوبر کو ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میںقائم مقام معاون وزیرخارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز بھی شرکت کریں گی۔ کانگریس کی سب کمیٹی کے چیئرمین کہتے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال تشویشناک ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی، اشیاء خوردونوش کی کمی، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں، ادویات کے فقدان، رابطوں کے ذرائع بند ہونے کی وجہ سے کشمیر پر گفتگو ضروری ہے۔ چیئرمین سب کمیٹی براڈ شرمین کے مطابق امریکہ میں مقیم کشمیریوں سے ہونیوالی ملاقاتوں کے بعد معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ اسی لاکھ کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ دشمن کسی بھول میں مت رہے۔ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔
بھارتی فوج کے مظالم میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نشے میں دھت اہلکار گھروں میں گھس کر خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ خواتین کو خاردار تاروں کے قریب سے گذرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ننھے منے معصوم بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ ساٹھ روز گذرنے کے باوجود بھارت کی دہشت گرد حکومت کی طرف سے کرفیو اور لاک ڈاؤن میں کوئی نرمی نہیں لائی گئی۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد ہے۔ عاشورہ کے جلوسوں پر لاٹھی چارج کیا گیا لیکن دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اس سے بڑھ کر شرمندگی اور کیا ہو گی کہ کل بھی نماز جمعہ ادا نہیں کرنے دی جائے گی۔ کیا دنیا بھر میں کسی بھی جگہ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہوں پر کبھی پابندی عائد کی گئی ہے اور کبھی ایسا ہوتا تو کیا دنیا کشمیر کی طرح خاموشی اختیار کرتی۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر انسانیت بھی شرمندہ ہے اور اس ظلم نے دنیا کے بڑے اصول پسند اور نام نہاد مہذب حکمرانوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو ساٹھ روز مکمل ہونے کے باوجود بھی دنیا کا احتجاج مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ یہ ردعمل ہی تعصب کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کیا کشمیریوں کا بڑا قصور مسلمان ہونا ہے؟؟؟ دنیا کب تک یہ تعصب جاری رکھے گی، کیا دنیا اسی لاکھ کشمیریوں کی زندگی کے خاتمے کی منتظر ہے، کیا دنیا نے دہشت گرد اور قصاب نریندرا مودی کو اسی لاکھ کشمیریوں کے قتل کا لائسنس جاری کر دیا ہے؟؟؟؟؟