پاکستان، طالبان افغان امن مذاکرات ککی جلد بحالی پر متفق، حوصلہ افزا صورتحال ہے: شاہ محمود
اسلام آباد‘ ملتان (سٹاف رپورٹر+نمائندہ خصوصی + نمائندہ نوائے وقت) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزارت خارجہ کے حکام سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اعلیٰ سطحی وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں جمعرات کو ملاقات کی۔ وفد کی وزیر خارجہ سے ملاقات میں خطے کی صورتحال، افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فریقین نے مذاکرات کی جلد بحالی کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وفد کو وزارت خارجہ میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں۔ پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے "مذاکرات" ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔ پرامن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا، اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کی تعریف کی۔ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا مصالحانہ کردار صدق دل سے ادا کرتا رہے گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دوطرفہ برادرانہ تعلقات‘ مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں۔ گزشتہ چالیس برس سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ممالک یکساں طورپر بھگت رہے ہیں۔ قبل ازیں وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغان طالبان کا نچوڑ یہ ہے بات ساری طے ہو چکی تھی‘ معاہدے پر تقریباً رضا مندی ہوگئی تھی۔ میری دعا ہے اور یہ کہوں گا کہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے اور صورتحال حوصلہ افزاء ہے۔ وزارت خارجہ حکام اور افغان طالبان کے درمیان ملاقات کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ وزیرخارجہ اور افغان طالبان وفد کا افغان امن عمل کی جلد بحالی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ پاکستان افغان امن کے مذاکرات کی بحالی کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ بہتر ماحول میں مذاکرات کیلئے تشدد کے سلسلے کو بند ہونا چاہئے۔ بہتر ماحول میں افغان امن عمل کی جلد بحالی ممکن ہو سکے گی۔ دیگر 11 افراد میں ملا فاضل اخوند، محمد نبی عمری، عبدالحق و ثیق، خیر اللہ خیرخواہ، امیر خان متقی، مطیع الحق خالص، عبدالسلام حنیفی، ضیاء الرحمان مدنی، شہاب الدین دلاور اور سید رسول حلیم شامل ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا کشمیر میں کرفیو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اظہار تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ امید کرتا ہوں افغان طالبان سے اور بھی نشستیں ہونگی۔ زلمے خلیل زاد پاکستان میں ہیں وہ طالبان سے گفتگو میں رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کو پل پل کی خبر ہے۔ انہوں نے مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا دورہ مصروف رہا، وزیر اعظم نے امریکی صدر سمیت عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ طالبان وفد کی پاکستانی وفد کے ساتھ ملاقات ہوئی، دونوں جانب سے افغان امن کے عمل کی بحالی پر اتفاق ہوا۔ دونوں جانب سے افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات بحالی پر زور دیا گیا۔ افغان طالبان سے ملاقات کے دیگر حساس پہلو وقت پر سامنے لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی مسئلہ کشمیر پر پوزیشن واضح ہے، امت مسلمہ کا بیان او آئی سی کے اجلاس میں سامنے آچکا ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی مدت ملازمت مکمل ہونے پر سبکدوش ہوئیں۔ ملیحہ لودھی کی جگہ سینئر سفارت کار منیر اکرم خدمات انجام دیں گے۔ افغان طالبان کے رکن وفد مولانا شہاب الدین نے دورہ پاکستان کے حوالے سے کہا دورے میں 5 اہم نکات زیربحث لائے جائیں گے اور معمولی جرائم میں قید افغان مہاجرین کی رہائی کے اقدامات پر زور دیا جائے گا۔ اہم افغان سیاسی رہنما اور شہریوں کی پاکستان میں آمدورفت میں مشکلات پر بات ہوگی۔ مولانا شہاب الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو صحت و تعلیم کے مسائل پر تبادلہ خیال ہوگا جبکہ معمولی جرائم میں قید افغان مہاجرین کی رہائی کے اقدامات پر زور دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ملتان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ٹی20 نہیں ٹیسٹ میچ ہے، ہمیں معیشت کمزور ہونے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے 3 دہائیوں میں 8 فیصد سالانہ معیشت کو بڑھایا، اب وہ ایک بڑی منڈی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کیلئے امن و استحکام ضروری ہے جب کہ ہمیں 7 سے 8 فیصد سالانہ ترقی حاصل کرنی ہے لیکن ایک طبقہ ہمارے ملک میں امن و استحکام نہیں چاہتا اور ہمیں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ ہم بھٹک گئے توتاریخ گواہ ہے ملک ٹوٹتے ہیں اور نقشے بدلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سے رشتے کا سبق صوفیاء نے دیا، جب جرمنی ایک ہو سکتا ہے تو کشمیر کیوں نہیں ہوسکتا۔ افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد اور امریکہ سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ افغان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی 27 لاکھ افغان باشندے پاکستان کے مہمان ہیں، کب تک افغانوں کو سنبھالیں گے، خطے میں امن کیلئے اور روزگار کیلئے ضروری ہے کہ افغان باشندوں کامسئلہ حل کیا جائے۔شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم امہ کو یکجا کریں ، ترکی ملائیشیا اور پاکستان نے مل کر فیصلہ کیا ہے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے عمائدین پر مشتمل وفد نے ملا برادر کی قیادت میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جمعرات کو دوپہر وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے ۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے پاکستانی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر تیار ہیں، امریکا مذاکرات میں واپس آئے تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔ ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ معاہدہ مکمل ہو چکا، اور اس معاہدے پر آج بھی قائم ہیں۔ سہیل شاہین نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ہم نے تجارت، افغان مہاجرین اور ویزا سہولیات جیسے امور پرمذاکرات کیے، شاہ محمود قریشی نے ہمارے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کے وفد نے وزیراعظم ہائوس میں وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ وزیراعظم آفس کے ذرائع نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے افغان طالبان وفد کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی زلمے خلیل سے ملنے کیلئے پی ایم آفس آئے۔ ذرئع نے کہا کہ میڈیا پر قیاس آرائی پر مبنی خبر چلا رہے ہیں۔