آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہیں: زرداری، جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا قدم نہیں اٹھائیں گے: بلاول
اسلام آباد (نامہ نگار+ایجنسیاں) سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر ملزموں پر جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعہ میگا منی لانڈرنگ کیس میں تمام ملزموں کو ریفرنس کی کاپیاں فراہم نہ کرنے کی بنیاد پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ دونوں کے جوڈیشل ریمانڈ میں 22اکتوبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور اس حوالہ سے تمام ملزموں کی حاضری یقینی بنائی جائے۔ عدالت نے استفار کیا کہ انور مجید کہاں پر ہیں جو اس مقدمہ میں نامزد ملزم ہیں۔ بتایا گیا کہ انور مجید اس وقت کراچی میں ہیں۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ اس کے کیا قانونی اثرات ہوں گے۔ وکیل سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کے لیٹ آنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ صبح پہلے رپورٹ کیا کریں ، یہ نہیں ہو گا کہ سب یہاں آپ کا انتظار کرتے رہیں۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ یونس قدوائی اور اعظم وزیر کے ریڈ وارنٹ کی درخواست وزارت داخلہ کو دی تھی۔ بیرون ملک موجود ملزموں کو انٹرپول کے ذریعہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیب نے بیرون ملک موجود ملزموں کی واپسی کے لئے وزارت داخلہ سے رجوع کیا ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ آئندہ سماعت تک ضمنی ریفرنس بھی دائر کر دیں گے۔ ضمنی ریفرنس پر چیئرمین نیب کی منظوری ہونا باقی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا کہنا تھا کہ کوئی طریقہ کار بنانا پڑے گا، کارروائی کیسے آگے بڑھے گی؟۔ سماعت کے بعد بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات سے آصف علی زرداری کو آگاہ کیا اور آزادی مارچ پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ زرداری نے کہا کہ میرے ڈاکٹرز نے کہا ہے مجھے ہسپتال منتقل کیا جائے۔ مجھے ہسپتال منتقل کر کے اسے سب جیل قرار دیا جائے۔ میری شوگر لو ہو جاتی ہے، جیل انتظامیہ تو مجھے بروقت ہسپتال بھی منتقل نہیں کر سکتی۔ مجھے کچھ ہوتا ہے تو جیل والوں کو تو کچھ سمجھ بھی نہیں آتا۔ دل کا مریض ہوں، جیل والے ڈیڑھ دو گھنٹے میں ہسپتال بھی نہیں پہنچا سکتے۔ عدالت سے روانگی کے وقت میڈیا کی جانب سے آصف زرداری سے سوال پوچھا گیا کہ مولانا فضل الرحمن نے کال دی ہے کیا وہ اس مشن میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس پر آصف زردای کا کہنا تھا کہ انشاء اللہ، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ میڈیا کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا پی پی پی بھرپور انداز میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی حمایت کرے گی۔ اس پر آصف زردای کا کہنا تھا کہ ہم سپورٹ کر رہے ہیں، جبکہ حکومت کو مزید وقت دینا ملک کے مفاد میں نہیں۔ تمام جمہوری پارٹیوں کو اب مل کر عملی جدوجہد کرنا ہو گی۔ کاروباری طبقہ عمران خان کی شکایت ان سے کر رہا ہے جنہوں نے انہیں وزیراعظم بنایا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی پر کوئی پشیمانی محسوس ہو رہی ہے تو اس پر سابق صدر نے جواب دیا کہ شاہد خاقان عباسی چیئرمین نیب کی تقرری پر معافی مانگ چکے ہیں۔ دوران گفتگو آصف زرداری سے صحافی نے پوچھا کہ سنا ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چل رہی ہے کہ معافی تلافی کرلیں‘ جس پر سابق صدر نے کہا کہ معافی وہ مانگیں گے؟۔ مولانا میرے دوست ہیں لیکن سیاست چیئرمین بلاول بھٹو نے کرنی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی جماعت اور سیاست ہے‘ ہماری دوستی رہے گی۔
اسلام آباد (نامہ نگار+ایجنسیاں، نوائے وقت رپورٹ) بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ فضل الرحمن کی کتنی مدد کر سکتے ہیں، مشاورت کیلئے پیپلزپارٹی نے اجلاس بلایا ہے، اپوزیشن کا ایک ہی مطالبہ ہے دھاندلی زدہ حکومت گھر جائے۔ معیشت برباد ہو چکی، پریشان حال بزنس کمیونٹی بھی آرمی چیف کے پاس پہنچ گئی۔ حکومت نے جتنے کارکن گرفتار کرنے ہیں کر لے۔ گزشتہ سال سے چلنے والا ڈرامہ سب کے سامنے ہے۔ آصف زرداری نے اپنے اصولوں اور نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک سال بعد بھی صرف ایک ہی ریفرنس دائر ہوسکا، ثبوت ہے نہ کوئی کیس، صرف ڈیڑھ ارب کا الزام ہے۔ زرداری پہلے بھی بغیر قصور 11 سال جیل میں رہے۔ پیپلزپارٹی کو عوام کی خدمت سے روکا جا رہا ہے، جھوٹے الزام لگا کر ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تبدیلی سرکار عمران خان بے نقاب ہوگئے۔ ایک سال میں نوجوانوں کو بے روزگار کر دیا گیا، پیپلزپارٹی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ عوام مشکل میں ہیں، حکومت نے پارلیمان کو غیر موثر بنا دیا، جھوٹ اور منافقوں کی حکومت ہے۔ ہم پر بھی کارکنوں کا دباؤ ہے، عوام تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمان فعال نہیں کریں گے تو ہم بھی سڑکوں پر ہوں گے۔ معاشی چیلنجز کا مقابلہ پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ قانون کی بالادستی کی بات کرنیوالے نے بنا کسی جرم لوگوں کو جیل میں ڈالا۔ پیپلزپارٹی دباؤ کے باوجود اٹھارہویں ترمیم پر سمجھوتہ کیلئے تیار نہیں، عوام کی معاشی مشکلات کی بات کریں گے، کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اکتوبر کے بعد ہم جنوبی پنجاب میں عوام سے رابطہ کریں گے۔ اگر شک ہوا کہ مولانا کسی قوت کے اشارے پر ہیں تو اپنی حمایت واپس لے لیں گے، پرامید ہوں ان کا مارچ کامیاب ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی کے پیچھے کوئی غیر جمہوری طاقت ہے، دھاندلی زدہ حکومت کو گھر بھیجنا ہمارا مؤقف ہے، نئے الیکشن سے پہلے اصلاحات ضروری ہیں۔ ملک کو نقصان پہنچانے والے کسی غیر جمہوری احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے، پیپلز پارٹی اپنی جمہوری جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہم ہر جمہوری احتجاج میں مولانا صاحب کا ساتھ دیں گے۔ بس دھرنا معاملہ پر اختلاف ہے۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور کسی کو دوسروں کی حدود میں مداخلت نہیں کر نی چاہئے۔ بلاول نے کہا کہ وزیراعظم نے پارلیمان کو کمزور کردیا ہے۔ پی پی پی وفاقی حکومت کو صوبوں کے حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تاجر طبقہ اپنے مسائل لے کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک جاپہنچا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تاجروں کے مسائل حل ہوجائیں گے لیکن اس سے یہ غلط مثال قائم ہورہی ہے کہ کل ہر کوئی اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کے بجائے جی ایچ کیو سے رابطہ کریں گے۔ دفاعی اور خفیہ اداروں کا کام ملک کے خلاف سازشوں کا توڑ کریں لیکن اگر وزیراعظم انہیں الیکشن سنبھالنے، معیشت سنبھالنے، خارجہ پالیسی کی ذمہ داری سونپ دیں گے تو سرحدوں کا تحفظ، دہشت گردی کا مقابلہ کون کرے گا جو نہایت ضروری ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی ڈومین میں رہے اور اپنا کام کریں تا کہ عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)کا ارادہ تھا کہ مل کر ایک مشترکہ جلسے کا اعلان کیا جائے۔