کیا پاکستان کا ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں بھی نیچے کی طرف سفر شروع ہو چکا
لاہور(نمائندہ سپورٹس+سپورٹس رپورٹر)جب ہار ہوتی ہے تو تنقید ہوتی ہے اور جب زیادہ ہار ہوتی ہے تو زیادہ تنقید ہوتی ہے۔ ایک کم بیک ہوتا ہے تو مشکل ہوتا ہے دو کا کم بیک ہوتا ہے تو زیادہ مشکل ہوتا ہے، جب کوچ نیا ہوتا ہے تو دباؤ کم ہوتا ہے اور جب ایک کوچ نیا اور ایک پرانا ہوتا ہے تو دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ جب بیرون ملک ناکامی ہو تو کم برا لگتا ہے جب ہوم گراؤنڈ پر ناکامی ہو تو زیادہ برا لگتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی قذافی سٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف ناکامی نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں، کیا پاکستان کی ٹیم بھی ون مین شو بنتی جا رہی ہے۔ بابر اعظم سکور کریں گے تو ٹیم چلے گی وہ ناکام ہو جائیں تو ڈھیر ہو جائے گی۔ نسبتا کمزور ٹیم کے خلاف اتنی غیر معیاری کرکٹ کی ذمہ داری کون لے گا، ٹیم کی فیلڈنگ میں خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں، یہ شعبہ بہتر کیسے ہو گا، کیا پاکستان کا ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں بھی نیچے کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے۔ شہزاد اور عمر اکمل کی کم بیک میں ناکامی کے بعد کیا وہ دوبارہ ٹیم انتظامیہ کا اعتماد حاصل کر پائیں گے، افتخار احمد کب تک کسی کی پسندیدگی کی وجہ سے ٹیم میں شامل ہوتے رہیں گے۔ ٹیم کامبی نیشن میں درپیش مسائل کیسے حل ہوں گے۔ اس ناکامی سے مصباح الحق کے کوچنگ سیکھنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، محدود اوورز کی کرکٹ میں سری لنکا کے خلاف ناکامی پی سی بی حکام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسی ٹیم جسے اپنے بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں ہیں وہ پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دے تو فیصلہ سازوں کو سوچنا ہو گا کہ غلطی کہاں ہے۔ قذافی سٹیڈیم میں ہزاروں شائقین اس امید کے ساتھ آئے تھے کہ ان کی ٹیم سری لنکا کی نسبتاً کمزور ٹیم کو باآسانی شکست دے گی لیکن اس کے برعکس قومی ٹیم کے غیر معیاری کھیل نے شائقین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پہلا ٹونٹی ٹونٹی میچ ہارنے کے بعد قومی ٹیم آئندہ میچوں کے لیے دباؤ کے ساتھ میدان میں اترے گی۔کپتان سرفراز احمد کی ذاتی کارکردگی اور نتائج نے ان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ٹیم کو اوپر اٹھانے کے لیے کپتان کو فرنٹ سے لیڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی کارکردگی کے ساتھ سرفراز احمد کے لیے اپنی کپتانی اور جگہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔