سری لنکا سے سری لنکا تک!!!!!
مرحوم حسنین جاوید نوائے وقت میں کالم لاہور سے لاہور تک لکھا کرتے تھے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ اس ٹائٹل کی کیا وجہ ہے کہنے لگے جہاں کہیں بھی چلا جاؤں اور جو بھی حالات بن جائیں واپس لاہور ہی آتا ہوں۔ لاہور سے لاہور تک بڑا مقبول کالم تھا حسنین جاوید مرحوم کے قارئین کو آج بھی ان کی کمی محسوس ہوتی ہو گی۔ بہت سادہ اور ہلکے پھلکے انداز میں لکھتے تھے۔ سٹی ڈیسک کے انچارج بھی ہوتے تھے ایک مرتبہ ہم نے انہیں ایک کرکٹ میچ کی خبر دی جو تین سطروں میں شائع ہوئی پوچھنے لگے وہ خبر لگ گئی تھی ہم نے کہا بالکل، کہنے لگے ایسے بھی خبر لگتی ہے کہ دو ٹیموں کا میچ تھا ایک ہار گئی ایک جیت گئی خبر دوبارہ لگے گی پتہ چلنا چاہیے کس نے کتنا سکور کیا کس نے کتنے آؤٹ کیے پھر وہ خبر دوبارہ شائع ہوئی۔ لہلہاتے مسکراتے ہوئے دفتر آتے تھے۔ ان کو دیکھتے ہی چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ زندہ دل اور خیال رکھنے والے انسان تھے۔آج بھی ہمیشہ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ سامنے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے سفر میں بھی معاملہ لاہور سے لاہور تک ہی جیسا ہے۔ دو ہزار نو میںلاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا سلسلہ منقطع ہوا پھر لاہور سے ہی واپسی کا سفر بھی شروع ہوا۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی میں بھی سری لنکن ٹیم کا کردار بہت اہم اور نمایاں ہے۔ ان دنوں بھی سری لنکا کی ٹیم دون ڈے اور ٹونٹی میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان کے دورے پر ہے اس سے پہلے بھی سری لنکن ٹیم ایک ٹونٹی ٹونٹی میچ قذافی سٹیڈیم میں کھیل چکی ہے جبکہ ورلڈ الیون میں بھی تشارا پریرا اس ٹیم کا حصہ تھے۔ اب سری لنکن کرکٹرز ایک روزہ اور ٹونٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان آئے ہیں اس دورے سے ملک میں باہمی سیریز کا منقطع ہونے والا سلسلہ بھی بحال ہوا ہے۔ سری لنکن ٹیم کی پاکستان آمد خوش آئند ہے۔ یہ دورہ کرنے والے تمام کرکٹرز کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔سری لنکا نے حقیقی معنوں میں دوستی کا حق ادا کیا ہے امید ہے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور پاکستان ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی میچوں کے ساتھ ٹیسٹ میچوں کی میزبانی بھی کرے گا۔
سری لنکن ٹیم پر دو ہزار نو میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد ہم دو ہزار پندرہ تک کسی بھی قسم کی بین الاقوامی کرکٹ سے محروم رہے۔ دوہزار پندرہ میں زمبابوے کے دورے پاکستان سے بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع ہوا، بنگلہ دیش کی وومن ٹیم کراچی میں کھیل کر گئی، پھر پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہوا پھر عالمی الیون کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا پھر سری لنکا کی ٹیم ایک ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی پھر پاکستان سپر لیگ کے میچز کا انعقاد اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا کراچی تین میچوں کی سیریز کھیلی یوں قطرے قطرے سے دریا بنتا چلا گیا۔
آج ایک مرتبہ پھر ہم ملک میں کرکٹ کے میدانوں کو آباد کرنے کے عمل سے گذر رہے ہیں۔ اعتماد سازی کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کا خوف ختم ہو رہا ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ غیر ملکی کرکٹرز کے خدشات کم ہو رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں، مسائل ختم ہو گئے ہیں لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس ہدف کی طرف درست انداز میں ضرور بڑھ رہے ہیں جو ملک میں مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ہو سکتی ہے۔ اس سفر میں دوہزار پندرہ سے اٹھارہ تک کام کرنے والے تمام افراد کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ بالخصوص سابق چیئرمین نجم سیٹھی کا کردار نہایت اہم رہا ہے کیونکہ پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے حقیقی معنوں میں دوریاں ختم ہونے کا سفر شروع ہوا تھا اور پھر مختصر وقت میں عالمی الیون، سری لنکا،ویسٹ انڈیز کے دورے نے دنیا کی سوچ بدلی اور آج ہم ایک مرتبہ پھر اپنے میدانوں پر بین الاقوامی کرکٹ دیکھ رہے ہیں۔ اس سفر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، افواج پاکستان، رینجرز، پولیس، حساس ادارے، ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قیادت نے اپنا کردار احسن طریقے سے نبھایا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ بھی بین الاقوامی کرکٹ کی مکمل بحالی کے ہدف میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ سفر رکنا نہیں چاہیے۔ اس عمل میں کوئی کوتاہی بھی نہیں ہونی چاہیے، آج ہم جس مقام تک آئے ہیں اس کے پیچھے شہدا کا خون اور ہزاروں افراد کی محنت شامل ہے۔ یہ محنت اور خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سفر میں لیڈنگ رول پلے کرے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر آگے بڑھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پہلے والے پیسے دیتے تھے ہم پیسے نہیں دیں گے، ایسی متنازع باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جنہوں نے پیسے دیے تھے اس وقت ان پر تنقید بھی ہوئی تھی لیکن یہ بھی سمجھیں کہ ہم اس حکمت عملی کے تحت منزل کی طرف بھی بڑھے ہیں اس لیے بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کو تنازعات سے بچانے کی سب سے بڑی ذمہ داری کرکٹ بورڈ پر ہے ایسے غیر ضروری بیانات سے گریز کریں کیونکہ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ماضی میں کھلاڑیوں کو پھٹیچر بھی کہا تھا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ کہ متنازعہ بیانات کو دہرانے کے بجائے مثبت انداز میں آگے بڑھیں انہیں بنا بنایا کھیل ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور آگے بڑھیں۔پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ کی محرومی سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب محرومیوں کو دور کرنے کا وقت ہے اسے الزامات کی نذر نہ کریں۔