• news
  • image

منی لانڈرنگ آج بھی جاری ہے تو سسٹم کی اصلاح کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے

تاجر نمائندگان کا وزیراعظم اور آرمی چیف کی یقین دہانی کا خیرمقدم اور چیئرمین ایف بی آر کا چشم کشا بیان
لاہور چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عرفان اقبال شیخ اور دوسرے عہدیداروں نے وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کاروباری برادری کو کاروباری ماحول اور معیشت بہتر کرنے کی یقین دہانی کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سلسلہ میں فوری اقدامات اٹھائے جائینگے۔ گزشتہ روز ایک بیان میں چیمبر کے عہدیداروں نے کہا کہ کاروباری شعبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کا عزم خوش آئند ہے‘ کاروبار ترقی کرینگے تو معیشت مضبوط ہوگی لہٰذا تاجروں کے ٹیکس نظام اور اہلکاروں کے صوابدیدی اختیارات پر تحفظات دور کئے جائیں‘ ریفنڈ کا عمل تیز کیا جائے‘ زرعی شعبے کے مسائل حل کئے جائیں اور یوٹیلٹی پرائسز کم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کا کردار تاجر برادری کیلئے سہولیاتی ادارے کا ہونا چاہیے مگر موجودہ صورتحال اسکے برعکس ہے۔ انکے بقول ٹیکسوں کا نظام پیچیدہ اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی تعداد میں کمی ٹیکس دہندگان کیلئے بڑا ریلیف ہوگی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت سمگلنگ کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات اٹھائے‘ سرحدوں پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے چیکنگ کا نظام سخت کیا جائے اور جو مصنوعات سمگلنگ کیلئے کشش رکھتی ہیں‘ ان پر ڈیوٹیاں اور ٹیکسز ہر ممکن حد تک کم کردیئے جائیں۔ انکے بقول بھاشا اور کالاباغ ڈیم پاکستان کو بہت زیادہ معاشی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اس لئے انکے مخالفین کو نظرانداز کرکے یہ ڈیم جلد تعمیر کئے جائیں‘ ملک کو ان سے سستی بجلی حاصل ہوگی جو صنعتوں کو فائدہ دیگی۔
ٹیکس سسٹم میں اصلاحات ہر حکومت کا مطمحٔ نظر رہا ہے جس کیلئے ہر وفاقی بجٹ کے موقع پر دل خوش کن اعلانات بھی کئے جاتے رہے ہیں مگر یہ اعلانات ہمیشہ زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے رہے اور اعدادوشمار کے ہیرپھیر کے ساتھ عملاً مکھی پر مکھی ماری جاتی رہی ہے۔ موجودہ حکمران پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان چونکہ سسٹم کی اصلاح اور کرپشن فری سوسائٹی کا ایجنڈا لے کر سیاسی میدان میں اترے تھے جس کیلئے تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا اور اس وقت کے حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو بطور خاص فوکس کرکے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے بلندبانگ دعوے کئے گئے اس لئے عوام کو عمران خان کی کرشماتی قیادت سے زیادہ توقعات وابستہ ہوئیں جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو وفاق میں مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھارا اور خیبر پی کے میں حکمرانی کا مینڈیٹ دیا جبکہ پی ٹی آئی کا یہی ایجنڈا 2018ء کے انتخابات میں بھی کارگر ہوا اور اسے خیبر پی کے ہی نہیں‘ وفاق اور پنجاب میں حکمرانی کا بھی عوامی مینڈیٹ حاصل ہوگیا۔ عوام نے حکمران پی ٹی آئی سے جتنی زیادہ توقعات باندھیں اتنے ہی وہ سرعت کے ساتھ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے پی ٹی آئی حکومت سے متقاضی نظر آئے مگر …ع ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق عوام کی توقعات بہت جلد کافور ہونے اور مایوسی میں تبدیل ہونے لگیں کیونکہ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت نے اقتدار میں آتے ہی جو اقتصادی اور مالی پالیسیاں طے کیں انکے باعث غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی کے بجائے بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ حکومت نے دو منی بجٹ پیش کرکے مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بعض نئے ٹیکس بھی عائد کردیئے جبکہ ڈالر کے نرخ بھی آئے روز بڑھنے لگے جس سے ملک میں مہنگائی کی شرح اور بیرونی قرضوں کا حجم مزید بلند ہوا جس کا بوجھ براہ راست عام آدمی اور ملک کے تاجروں اور کسانوں پر پڑا۔
مہنگائی کے اٹھنے والے انہی سونامیوں کے دوران حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کیلئے رجوع کرلیا اور اس قرضے کی خاطر اسکی تمام ناروا شرائط بھی قبول کرلیں جن کی بنیاد پر کم و بیش ہر مہینے پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جانے لگا۔ حکومت کی یہ پالیسی یقیناً مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف تھی جبکہ حکومتی ارکان نے آئندہ مہنگائی مزید بڑھنے اور عوام کو صبر کرنے کا درس دیکر انہیں عملاً زندہ درگور کرنے کا بھی اہتمام کر دیا۔ بے شک وزیراعظم اور دوسرے حکومتی ارکان کی جانب سے کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے اور منی لانڈرنگ کی تمام رقوم بیرون ملک سے ملک واپس لانے کے تواتر کے ساتھ اعلانات کئے جاتے رہے جس سے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے سے متعلق امید کی جوت عوام کے دلوں میں پیدا کی گئی۔ اس میں زیادہ تر اپوزیشن کے لوگ نیب کے شکنجے میں آئے جن میں سے کچھ نیب عدالتوں کی سزائیں بھگت رہے ہیں اور کچھ ابھی مقدمات بھگت رہے ہیں جنہیں نیب کی تحویل میں دیا اور جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ مگر اس ساری ایکسرسائز کا نتیجہ چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کے گزشتہ روز کے بیان کی صورت میں برآمد ہوا ہے جن کے بقول اب بھی ملک میں منی لانڈرنگ ہورہی ہے جس میں 15 سے 20 فیصد کرپشن کا پیسہ ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے وزیراعظم کے اعلانات کو بھی گہنا دیا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں 6‘ ارب ڈالر ملک سے باہر گئے ہیں جنہیں ملک واپس لانے کا ہمارے پاس کوئی میکنزم نہیں ہے۔ اس حوالے سے اس سے بڑی مایوس کن صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ نہ صرف منی لانڈرنگ کا پیسہ بیرون ملک سے واپس نہیں لایا جاسکا بلکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے مزید پیسہ ملک سے باہر جارہا ہے۔ اس طرح جن حکمران اشرافیہ طبقات کے گزشتہ ادوار میں وارے نیارے تھے‘ انکی آج بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں جبکہ حکومت کے پاس انکی گرفت کا کوئی میکنزم ہی موجود نہیں۔ اسکے برعکس حکومتی اقتصادی اور مالی پالیسیوں نے تاجروں‘ کسانوں‘ مزدوروں سمیت عوام کا کچومر نکال دیا جنہیں حکومت کے پہلے بجٹ میں نئے جان لیوا ٹیکسوں کے بوجھ تلے بھی مزید دبا دیا گیا۔ اس پر تاجر طبقہ نے جن کے کاروبار پہلے ہی عملاً ٹھپ ہوچکے تھے ایف بی آر کی ٹیکس پالیسی اور پچاس ہزار روپے تک کی خریدوفروخت کیلئے بھی شناختی کارڈ پیش کرنے کی شرط کو ناروا قرار دیکر اس کیخلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلہ میں تاجر نمائندوں کے متعدد بار مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی سے مذاکرات ہوئے مگر انہیں ہر جانب سے سخت لب و لہجے میں جواب ملا اور ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان کی جانب سے یہ بھی باور کرایا جاتا رہا کہ جو بھی کرلیں‘ ٹیکس تو بہرصورت دینا پڑیگا اور چوروں ڈاکوئوں کی گرفت تو ہرصورت ہو گی۔
اس وقت وفاقی بجٹ کو پیش ہوئے بھی تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر نہ تاجروں اور نئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں سے متاثر ہونیوالے دوسرے طبقات کی اب تک شنوائی ہوئی ہے اور نہ ہی ٹیکس سسٹم میں ایسی بہتری کے کوئی آثار نظر آئے ہیں جس سے ٹیکس دہندگان کو بخوشی ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو بجٹ میں تخمینہ شدہ ریونیو کی وصولی کا ہدف شاید ہی پورا ہو پائے۔ نتیجتاً بجٹ خسارہ مزید بڑھے گا تو افتاد ترقیاتی منصوبوں پر ٹوٹے گی جن پر پہلے ہی کام کا آغاز نہیں ہوسکا۔
حکومت کی ان پالیسیوں کا گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے اور عدالت عظمیٰ کے مسٹر جسٹس عمرعطا بندیال نے ٹیکس فراڈ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا ہے کہ ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے طریقہ کار سے تو ٹیکس دینے کے خواہش مند بھی ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرینگے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے ایک دوسرے بنچ نے فلورملز کو بنک گارنٹی واپس کرنے کے حکم کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا اور قرار دیا ہے کہ تجارتی حجم کم ہونا معیشت کیلئے نقصان دہ ہے۔ تاجر طبقات میں حکومت کی ٹیکس وصولی سے متعلق پالیسیوں پر اسی تناظر میں بے چینی کی فضا قائم تھی جن کی مجاز فورمز پر شنوائی نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی شکایات کے ازالہ کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رجوع کیا چنانچہ تاجر نمائندگان کی ان سے ملاقات کی بنیاد پر انکی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کا اہتمام ہوا جنہوں نے انہیں کاروباری ماحول اور معیشت کو بہتر کرنے کی یقین دہانی کرائی‘ تاہم تاجروں کو حقیقی ریلیف ملنے سے ہی اطمینان حاصل ہوگا۔ تاجر نمائندگان نے بجا طور پر عوام پر اشیائے صرف کی گرانی کا ڈالا گیا ناروا بوجھ بھی کم کرنے کا تقاضا کیا ہے کیونکہ اس بوجھ کے باعث انکی قوتِ خرید ہی کم نہیں ہوئی‘ ان کا جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے جو کسی صحت مند معاشرے کیلئے ہرگز نیک شگون نہیں۔ حکومت کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے عوام الناس کو اب بہرصورت ریلیف دینے اور تاجروں‘ کسانوں کو ٹیکسوں کے ہیرپھیر سے نجات دلانے کے اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ انکے اضطراب میں کمی آئے اور وہ معیشت کی بحالی و ترقی میں دلجمعی کے ساتھ اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ ہوں۔ تاجر نمائندگان کا یہ کہنا درست ہے کہ کاروبار ترقی کرینگے تو معیشت مضبوط ہوگی۔ اس تناظر میں حکومت کو تاجر برادری کے موقف اور سپریم کورٹ کے ریمارکس پر بھی توجہ دینا اور قومی معیشت کی بحالی کی خاطر انکے تحفظات دور کرنا چاہئیں اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنیوالوں کی گرفت کیلئے قانون کا شکنجہ مضبوط اور مؤثر بنانا چاہیے۔ اگر حکومتی دعوئوں کے باوجود آج بھی منی لانڈرنگ جاری ہے تو سسٹم کی اصلاح کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن