پاک افغان طالبان کا میاب مذاکرات
پاکستان اور افغان طالبان نے افغان امن مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کرلیا ہے اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔ علاوہ ازیں طالبان وفد نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ دوسری جانب افغان صدارتی محل (ارگ) کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا کہ طالبان ایک شدت پسند گروہ ہے اور اْن کا اس طرح استقبال کرنا اور پروٹوکول دینا ملکوں کے درمیان سفارتی اْصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں امن پاکستان کی اقتصادی ترقی کی کلید ہے یہی وجہ ہے کہ جب سے افغانستان میں جنگ شروع ہوئی اس وقت سے پاکستان کی اقتصادیات زوال کا شکار ہیں، یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر ہمسائے میں جنگ ہورہی ہو تو اس جنگ کے منفی اثرات تمام ہمسایہ ملکوں کے حالات کو متاثر کرتے ہیں، جبکہ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغان مہاجرین ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور اس طرح پاکستان کو چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا تھا جبکہ اب بھی تیس لاکھ مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان میں اب بھی حقیقی معنوں میں امن کا قیام عمل میں نہیں آیا بلکہ اب بھی کبھی افغان فورسز طالبان پر اور کبھی طالبان افغان فورسز پر حملے کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا، بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ جب امریکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں مشغول تھا اصولی طورپر اس وقت افغان فورسز کو طالبان کے خلاف کارروائی روک دینی چاہئے تھی کیونکہ وہ کون سی کامیابیاں حاصل کررہی تھیں، اس لئے جب امن کی امید پیدا ہوئی تھی اور جنگ کا مرکزی کردار امن مذاکرات پر آگیا تھا تو افغان فورسز کو بھی اپنی تمام کارروائیاں فوری طور اس وقت تک کے لئے روک دینی چاہئے تھیں جب تک کہ جاری امن مذاکرات کا کوئی نتیجہ سامنے نہ آجاتا۔ لیکن اسکے برعکس افغان فورسز نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان نے بھی خود کش حملے اور بم دھماکے جاری رکھے جس کے نتیجے میں ایک دھماکہ میں ایک امریکی فوجی بھی زندگی کی بازی ہار گیا اور اس ایک فوجی کے مرجانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات اس وقت معطل کردئیے جب یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والے تھے۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان جب امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو انہوں نے امن مذاکرات میں تعطل پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ امن کی یہ کوشش ختم نہیں کی جائے گی بلکہ جلد ہی دوبارہ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اس کے بعد طالبان کا وفد پاکستان آیا اور طالبان نے بھی امن کی خواہش ظاہر کی۔ افغان طالبان کی جانب سے بھی امن کی خواہش ایک مثبت اقدام ہے، لیکن اس ضمن میں افغان حکومت کا یہ اعتراض درست نہیں کہ افغان طالبان کو سفارتی پروٹوکول کیوں دیا گیا کیونکہ وہ ایک شدت پسند گروہ ہے، تو شدت پسند گروہ یہ افغان حکومت کے لئے ہے جب کوئی فریق سمجھوتہ یا صلح کرانے میں فعال ہوتا ہے تو اس کے لئے دونوں فریق برابر ہوتے ہیں اگر منصف بھی یہی تصور کرلے کہ ایک فریق تو حکومت ہے اور دوسرا فریق شدت پسند گروہ تو پھر امن مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی، امن کا قیام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب صلح کرانے والا فریقین کو ایک نظر سے دیکھے اور ایک جیسا مرتبہ دے۔ بہرحال امریکہ کو کابل میں ہونے والے دھماکے میں امریکی فوجی کے مرنے کا دکھ تھا اسی بنا پر امن مذاکرات میں عین اس وقت تعطل پیدا ہوا جب صلح ہونے والی تھی لیکن اس کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی حالات کا دیانت داری سے تجزیہ کرنا چاہئے کہ امن مذاکرات کے درمیان افغان فورسز بھی طالبان کے خلاف اپنی کارروائیاں روک دیتیں کیونکہ اگر افغان فورسز کارروائی کریں گی تو طالبان بھی جوابی کارروائی کا حق رکھتے ہیں اور جوابی کارروائی میں وہاں سے گزرنے والا کوئی امریکی بھی اس کا شکار ہوسکتاہے اور ایسی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ پھر سے امن مذاکرات کا سلسلہ موقوف کردیں گے لہذا بہتر یہی ہے کہ ٹرمپ افغان حکومت کو بھی امن مذاکرات کے درمیان کارروائیاں روکنے کا مشورہ دیں تاکہ امن مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ سکے اور اس خطے میں بھی مستقل طور پر امن کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا مصالحانہ کردار صدق دل سے ادا کرتا رہے گا،پاکستان، صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات ہی مثبت اور واحد راستہ ہے، افغانستان میں امن پورے خطے کے امن و استحکام کے لئے ناگزیر ہے ،ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا، اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے،پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں۔
گذشتہ چالیس برس سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ممالک یکساں طور پر بھگت رہے ہیں ، وزیراعظم عمران خان سے بھی افغان طالبان کے وفد نے ملاقات کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورڈی جی آئی ایس آئی بھی ملاقات میں موجود تھے۔ اس لحاظ سے یہ ملاقات بہت مفید قرار دی جاسکتی ہے کہ اس میں آرمی چیف او رڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے، بہرحال اب گیند امریکی کورٹ میں ہے اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر دارومدار ہے کہ وہ امن مذاکرات پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں، اصولی طور پر ٹرمپ نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی فورسز کو وطن واپس بلائیں گے اور اب انتخابات قریب ہیں لہذا نہیں قوم سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہئے اور ماضی کی تمام شکایات سے درگزر کرتے ہوئے امن مذاکرات کی جانب آنا چاہئے ویسے بھی آج پوری دنیا میں امریکہ کی پھیلائی ہوئی بدامنی کی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں اب امریکہ کو چاہئے کہ امن کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس تباہی کو تعمیر میں بدلے تاکہ عالمی سطخ پر بالخصوص غریب ملکوں میں بھی خوش حالی کو ممکن بنایا جاسکے۔