جسٹس فائز کیس: پراپرٹی بنانے کا معاملہ دفنا نہیں سکتے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت صدارتی ریفرنس کیخلاف13 سے زائد متفرق درخواستوںکی سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو وفاق کی جانب سے جواب جمع کرانے اور جواب کی کاپیاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل اوردیگر فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے استفسارکیا کہ کیا آپ نے درخواست کے حوالے سے حکومت کی جانب سے جواب جمع کرا دیا ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ ابھی تک عدالتی حکم پر جواب جمع نہیں کرا سکے ہیں جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ زیرسماعت ریفرنس کے حوالے سے دائردرخواست کے قابل سماعت ہونے کا بھی جائزہ لیا جائے گا چونکہ دوہفتے بعد بینچ کے ایک رکن جج ملک سے باہرجائیں گے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کوتیزی سے نمٹایا جائے۔ جسٹس فائز کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل پر لگایا گیا الزام بدنیتی اور ملی بھگت پر مبنی تھا اور ہمیںبدنیتی کے الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے، اس کیس میں کسی کومعطل نہیں کیا گیا ہم شفاف طریقے سے آگے بڑھناچاہتے ہیں، ہمیںبتایا جائے کہ جو جوابات جمع ہوئے ہیں ان کی کاپیاں آپکے پاس ہیں، ہم اس کیس کو شفاف طریقے سے لیکر آگے چلیں گے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ میرے موکل کیخلاف جان بوجھ کر مہم چلائی گئی، سوال یہ ہے کہ کیا کسی جج کو کسی فیصلے کیوجہ سے ہراساں کیا جا سکتا ہے میرے موکل نے ایک فیصلہ دیا پسند نہیں کیا گیا جس کے بعد میرے موکل کیخلاف مہم شروع کی گئی اس طرح یہ کیس پوری عدلیہ کا ٹرائل ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ کیس پہلے ہی آپ کی بیماری کے باعث التواء کا شکار ہو چکا ہے، اس کے ساتھ آپ کے اعتراض کی وجہ سے دو جج بینچ سے الگ ہوئے تھے، جو ایک تکلیف دہ عمل تھا صدارتی ریفرنس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جائیدادیں بدنیتی کے تحت بنائی گئیں، ہم پراپرٹی بنانے کے معاملے کو دفنا نہیں سکتے، جائیدادیں بنانے کیلئے پیسے کہاں سے آئے تھے اس کا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی شکایت آتی ہے تو اس کو شفاف طریقے سے دیکھنا ضروری ہے بتایا جائے کہ صدارتی ریفرنس میں جو الزامات لگائے گئے کیا وہ غلط ہیں، جبکہ ریفرنس میں بیان کیے گئے حقائق سے انکار نہیں کیا گیا، جس پر وکیل نے موقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کیخلاف شکایات سننے والی کونسل نے میرے موکل کے حوالے سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت نے ان سے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ اور بطور عدلیہ ادارے سے متعلق ہے، یہ معاملہ اس ادارے کے لیے بھی اہم ہے ہم نے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے، جب درخواست گزار بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اس وقت تین پراپرٹیز بیرون ملک خریدی گئیں، کیا یہ حقیقت نہیں، جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اسی بینچ پر لگی ہیں آخر اس کیس کی سماعت کیلئے اتنی عجلت کیوں ہے، توفاضل جج نے کہا کہ ہمارے سامنے ماضی کے مقدمات سے مختلف کیس ہے، میں چاہتا ہوں کہ دس رکنی بینچ اس ادارے کا تحفظ کرے۔ منیر اے ملک نے سماعت دو ہفتے تک ملتوی کرنے کی استدعا کی تو عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔