مشرق وسطیٰ جانا تاریخ کا بدترین اقدام، غلط فیصلے سے عراق میں ہزاروں فوجی مارے گئے: ٹرمپ
واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ + اے پی پی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں جانا امریکی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط اطلاعات پر گئے جبکہ وہاں ایسے ہتھیار نہیں تھے۔ ٹوئٹر پیغام میں امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ خطے میں 80 کھرب ڈالر خرچ کئے۔ ہزاروں امریکی فوجی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے۔ دوسری طرف کے بھی لاکھوں لوگ مارے گئے۔ شام سے اپنے 50 فوجی اہلکاروں کو نکال لیا ہے۔ یورپ نے جن داعش جنگجوؤں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے ترکی ان پر قابو پائے‘ ہم اب اپنے عظیم فوجیوں کو محفوظ طریقے سے گھر واپس لا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط اطلاع پر عراق گئے تھے۔ غلط فیصلے سے ہزاروں امریکی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔ دوسری طرف سے بھی لاکھوں لوگ مارے گئے۔ نہ ختم ہونے والی یہ مضحکہ خیز جنگیں اب ختم ہو رہی ہیں۔ یورپ نے جن داعش جنگجوؤں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے ترکی ان پر قابو پائے۔ ادھر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرائن کے صدر سے ان کی ٹیلی فون پر گفتگو دوستانہ تھی اور یہ کسی پر کوئی دباؤ ڈالنے کے لئے نہیں تھی۔ اس مکالمے میں یوکرائن کے صدر پرجوبائیڈن کے بارے میں تحقیقات کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ ٹرمپ نے پہلے بھی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ میری ٹیلی فونک گفتگو کا راز فاش کرنے کا معاملہ پوری طرح غلط ہے۔
واشنگٹن (این این آئی)امریکی صدر کے دفتر نے باقاعدہ طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ہونے والی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ڈیموکریٹ جماعت کے رہنماؤں کو بھیجے گئے ایک خط میں ان تحقیقات کوبے بنیاداورآئینی طور پر غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ڈیموکریٹس کی اکثریت والے ایوان کی تین کمیٹیاں صدر ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کر رہی ہیں۔ان تحقیقات میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا صدر ٹرمپ نے اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کروانے کے لیے یوکرین کی حکومت پر امداد کو بطور دباؤ استعمال کیا۔وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ کیپولون نے اس خط میں ایوانِ نمائندگان کی سپیکر اور ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی اور کانگریس کی تین کمیٹیوں کے ڈیموکریٹ سربراہان کو مخاطب کر کے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایسی تحقیقات کر رہے ہیں جو ’انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔خط میں ڈیموکریٹس پر 2016 کے انتخاب کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے اور تحقیقات کو ’آئینی طور پر غیرقانونی اور مروجہ طریقہ کار کی خلاف ورزی‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ’امریکی عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ آپ کی جانبدارانہ اور غیرآئینی تحقیقات میں کسی بھی قسم کے حالات میں شریک نہیں ہو سکتے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے تحقیقات میں تعاون سے انکار کے بارے میں خط ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یورپی یونین کے لیے امریکی سفیر کو کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکے جانے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ گورڈن سونڈ لینڈ نے کہا ہے کہ انھیں امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کی صبح حکم دیاتھا کہ وہ کانگرس کے سامنے جوابدہی کے لیے پیش نہ ہوں۔ان کے وکیل رابرٹ لسکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سفیر سونڈ لینڈ اس بات پر سختی سے یقین رکھتے ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ امریکہ کے مفاد میں کام کیا ہے اور وہ کمیٹی کے سامنے تمام سوالات کے مکمل طور پر سچائی کے ساتھ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔