• news

فضل الرحمن سے مذاکرات کے لئے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی حکومت نے جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے جو ان سے اپوزیشن کے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ پر مذاکرات کرے گی۔ اس بات کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جو بدھ کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت بنی گالہ سیکرٹریٹ میں ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعلی کے پی کے محمود خان سمیت وفاقی وزرائ، تینوں گورنرز اور پارٹی کی سینئر قیادت نے شرکت کی۔ کور کمیٹی نے پنجاب اور خیبر پی کے میں فوری بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا معاملہ حکومتی اور پارٹی سطح پر زیر غور لانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ جمعیت علماء اسلام سے مذاکرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کورکمیٹی نے ملکی سیاسی و معاشی صورتحال اور مہنگائی کے خلاف اقدامات پر بھی غور کیا جب کہ پارٹی کی صوبائی تنظیموں کو تحلیل کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی قسم کا انتشار کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے گا، ملک کو اس وقت اور بھی خطرات درپیش ہیں، حکومت اپوزیشن کے جائز مطالبات ضرور سنے گی۔ حکومت نے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک ہونگے۔ کمیٹی اپوزیشن سے اس کے مطالبات پر مذاکرات کرے گی۔ کور کمیٹی نے پنجاب اور خیبر پی کے میں فوری بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے شرکا کو سعودی عرب، ایران اور چین کے دوروں پر اعتماد میں بھی لیا۔ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی قسم کا انتشار کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے گا، ملک کو اس وقت اور بھی خطرات درپیش ہیں، ہم کشمیریوں کا مقدمہ عالمی فورمز پر لڑ رہے ہیں، حکومت کو معیشت اور کشمیر جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، حکومت اپوزیشن کے جائز مطالبات ضرور سنے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے حوالے سے وزیر دفاع پرویزخٹک کو ذمہ داری دے دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ آزادی مارچ کے سیاسی حل کیلئے پرویز خٹک کمیٹی کے ارکان کا انتخاب خود کریں۔ واضح رہے کچھ روز قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے مذاکرات کا آپشن کھلا ہے، کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں ، اگر کوئی خود بات کرنا چاہے تو دروازے بند نہیں کرنے چاہیںذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمنٰ سے مذاکرات کیلئے 4 رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ پرویز خٹک ہوں گے۔ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی میں چاروں صوبوں کے پارٹی نمائندے ہوں گے، مذاکراتی کمیٹی کے ناموں کو جلد حتمی شکل دی جائے گی جبکہ مذاکراتی کمیٹی دوسری اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے کرے گی وزیراعظم نے کور کمیٹی کو ایران اور سعودی عرب کے دورے پر بھی اعتماد میں لیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ ملکی معیشت مشکل حالات سے باہر نکل چکی ہے، بہت جلد معاشی مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق مولانا کے آزادی مارچ پر بات کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ کمیٹی وزیراعظم کے حکم سے بنائی گئی۔ مولانا فضل الرحمان سے میں خود رابطہ کروں گا۔ مولانا اپنا کام کرتے رہیں، حکومت نے اپنی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ منتخب حکومت کو اس طرح کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہم مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے۔ ہم مسائل پر اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ احتجاج اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن کو احتجاج سے گریز کرنا چاہئے۔ ملک کی بہتری کے حق میں جو بھی بات ہوگی اس پر گفتگو ہونی چاہئے۔ مولانا فضل الرحمان اپنا ایجنڈا ہمارے سامنے رکھیں وہ ڈکٹیٹر نہ بنیں، جمہوری طریقہ اپنائیں۔ بند گلی میں جائیں گے تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اگر مولانا مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو پھر یہ ملک کیخلاف سازش ہوگی۔
کمیٹی


اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفے سے قبل حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے ۔ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے، لیکن اداروں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ کوئی ادارہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ ایسی کوشش کی گئی تو آزادی مارچ کا رخ ان کی طرف موڑ دیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خواہش ہے کہ تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں۔ اس خطرناک صورتحال میں سب مل کر بات کریں۔ میں مولانا فضل الرحمن کو اس گول میز کانفرنس میں لیکر آئوں گا، ہم آزادی مارچ میں شرکت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار بدھ کو مولانا فضل الرحمن، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور مسلم لیگ (ن)کے یعقوب خان ناصر نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تینوں رہنمائوں کے درمیان اڑھائی گھنٹے سے زائد ملاقات جاری رہی۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے آزادی مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قوم نے 10ماہ میں جعلی الیکشن کے نتائج دیکھ لئے ہیں، 400ادارے بیچے جارہے ہیں، اب پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے نئے الیکشن کرائے جائیں، انتخابات کے بعد جو بھی نتائج ہوں اور جو بھی جیتے نتائج ہم قبول کریں گے، حکومتی لوگ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، حکومت کے تمام حربے ناکام ہوچکے ، آئین کی حکمرانی اور اداروں کا حدود میں رہ کر کام کرنے کے مطالبے پر دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے کی صورت میں ہی مذاکرات کریںگے، انہوں نے کہا کہ انصار الاسلام رضاکار فورس پر حکومت بات کا بتنگڑ بناکر خوف پھیلا رہی ہے، حکومت خوفزدہ نہ ہو، تیر سے شہتیر نہ بنائے۔ مولانافضل الرحمن نے کہا کہ آئین کی حکمرانی اداروں کا حدود میں رہ کر کام کرنے کے مطالبے پر دوسری رائے نہیں ہوسکتی، قوم نے دس ماہ میں جعلی الیکشن کے نتائج دیکھ لئے، چار سو ادارے بیچے جارہے ہیں، عوام کی ایک ہی آواز ہے، نئے الیکشن کرائے جائیں، جو بھی نئے الیکشن کے بعد جیتے نتائج قبول کریں گے، حکومتی لوگ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، حکومت کے تمام حربے ناکام ہوچکے ہیں۔ حکومت کے استعفے کے سوا مذاکرات نہیں ہوسکتے حکومت کے خلاف اپوزیشن پوری طرح متحد ہے۔ اس موقع پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں گول میز کانفرنس بلائی جائے، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں، آزادی مارچ میں بھرپور شریک ہونگے ، ہمیں کسی کی شکل پسند کا مسئلہ نہیں ،پاکستان دن بدن تنہا ہورہا ہے ،مولانا صاحب کی تحریک میں مذہبی کارڈ کی باتیں درست نہیں ،ہم سب مسلمان ہیں ،ہم آئین کے تابع رضاکارانہ اس پاکستان میں رہتے ہیں، ، ہم مارچ کا استقبال کریں گے، ہر ضلع سے کارکنوں کو مخصوص تعداد میں شریک ہوگی، اگر تنگ کیا گیا تو ایسا جمہوری ہنگامہ کھڑا کریں گے کہ جام کمال کی حکومت جام کردیں گے۔ غیر جانبدار الیکشن کرائیں جو بھی جیت جائے اسے حق حکمرانی دیا جائے نوازشریف اور اس کی بیٹی کا کیا قصور ہے، مریم نواز کا وزن تیس کلو کم ہوگیا ہے، پنجاب سے نوازشریف اور مریم نواز کی رہائی کے لئے آواز اٹھنی چاہئے۔سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر نے کہا کہ مسلم لیگ ن کوئی کسی مجبوری سے آزادی مارچ میں شرکت نہیں بھی کرتا تو بھی حامی ہے میں ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو پارٹی کے اہم اجلاسوں میں نہیں بلایا جاتا ہم اس مارچ میں شرکت کریں گے۔
فضل الرحمن


اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کوئی ملک ایک سال میں انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی ملیشیا کی گنجائش نہیں ہے۔ آج پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، ہمارا رویہ جمہوری ہے۔ ہم نے پرویز خٹک صاحب کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کریگی۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہو کہ ہمیں کوئی خوف ہے تو ایسا نہیں ہے۔ دھرنوں سے حکومتیں نہیں گرتیں۔ کسی کو لٹھ برداری کی اجازت نہیں دیں گے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے معاون خصوصی براے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ وزارت خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ فردوس عاشق اعوان نے اس موقع پر کہا کہ نیشنل ایکشن پلان جب بنا اس میں کچھ ٹی او آر بنائے گئے تو پیمرا کو بھی تیرہ نکاتی پیرامیٹر دیا گیا تھا جس پر وہ عمل کرنے کی پابند ہے۔ لہذا کسی نئی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران زیادہ تر گفتگو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتیں، ہمارا 126 دنوں کا تجربہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس تھا، ہم سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت اور جذبہ رکھتے ہیں جبکہ پرویز خٹک کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لیے مختصر کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی رویے اپنانے چاہیئں، عوام کے جان و مال کا تحفظ اور حکومت کی عملداری بھی ضروری ہے، سیاسی جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے حکومتیں نہیں گرائی جاسکتیں، اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ کسی کی آمد اور دھرنے سے حکومتیں چلی جاتی ہیں تو ہمارا تجربہ اس سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی قسم کا خوف نہیں ہمیں دھرنے کا 126 دن کا تجربہ ہے، ہم اپوزیشن جماعتوں کی بات سننے اور مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔27 اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ ہم وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اسے کشمیریوں کے ساتھ احتجاج یکجہتی کے طور پر منا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تیرہ ماہ معاشی مسائل سے گزر کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی معیشت کے حوالے سے حوصلہ افزا سگنل مل رہے ہیں۔ دورہ چین کے دوران سرمایہ کاری میں اضافے کا سگنل ملا۔ لوکل گورنمنٹس اپنی میعاد پوری کر چکی ہیں لہذا آج کور کمیٹی کے اجلاس میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں ہماری حکومت ہے صوبائی وہاں ہم فروری سے انتخابات کروانے جا رہے ہیں۔ ہم ان مشائخ، علماء کرام کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب ہمارے پی ٹی آئی کے کارکنان یہاں آئے تھے تو ایک گملہ تک نہیں ٹوٹا تھا۔
شاہ محمود

ای پیپر-دی نیشن