فیصل صالح حیات کا حلقہ114 جھنگ میں دوبارہ گنتی کیلئے چیف جسٹس کوخط
اسلام آباد ( سپیشل رپورٹ) سابق وفاقی وزیر اور جھنگ سے قومی اسمبلی کے امیدوار فیصل صالح حیات نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت اگر ہارنے والا امیدوار پانچ فیصد ووٹ سے کم ہارا ہوگا تو اس کے ووٹوں کی ازسرنو گنتی ہوگی۔ فیصل صالح حیات نے چیف جسٹس کے نام خط میں کہا ہے کہ میں اپنے حلقہ 114 اے جھنگ سے اپنے مخالف امیدوار سے 2018ء کے الیکشن میں صرف 589 ووٹوں سے ہارا ہوں جس پر میں نے قانون کی مطابق دوبارہ گنتی کے لئے درخواست دی جبکہ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ میرے حلقہ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہیں ہوسکی۔ جو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ناکامی کا ایک کھلا ثبوت ہے ۔ فیصل صالح حیات نے اپنے خط میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے ۔فیصل صالح حیات نے کہا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کوووٹووں کی دوبارہ گنتی کی درخواست دی گئی جس میں ریٹرننگ آفیسر قانون کی پابندی کرنے میں بری طرح ناکام رہا جس نے ابتدائی طور پر 10 پولنگ سٹیشنز کے ووٹوں کے تھیلے کھولنے کی اجازت دی جبکہ اسی آرڈر میں 25 پولنگ سٹیشنز کے ووٹوں کے تھیلے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ان ابتدائی 10 پولنگ سٹیشنز میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد مبینہ فتح یاب امیدوار اور درخواست گزار کے مابین ووٹوں کے فرق میں 78 ووٹوں کی کمی واقع ہوئی جو کہ ووٹوں کے فرق کا 13.24فیصد بنتا ہے جس کے بعد ریٹرننگ آفیسر نے نتائیج میں واضح تبدیلی بھانپتے ہوئے بغیر کوئی وجہ بتائے محض اپنے صوابدیدی اختیارات کا سہارا لیتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل ختم کرتے ہوئے ابتدائی نتائیج کو برقرار رکھا جب کے ایسا صرف اپنے اور اپنے انتخابی عملے کے غیر قانونی اعمال پر پردہ ڈالنے کے لئے کیا گیا تھا۔اس حلقے میں کل پولنگ سٹیشنز کی تعداد 425 تھی اور اوپر بیان کردہ تبدیلی کے بعد درخواست گزار کی فتح یقینی نظر آنے لگی تھی لحاظہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے درخواست گزار کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیقانونی حق سے محروم کر دیا۔ اس دوران ایسے دیگر معاملات میں ہائی کورٹس کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا مگر سپریم کورٹ نے ہدایات دیں کے ایسے معاملات الیکشنز ٹریبیونلز کے سامنے پیش کئے جائیں لحاظہ درخواست گزار کے پاس لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبیون کے پاس الیکشن پیٹیشن (نمبر 28) داخل کروانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ مندرجہ بالا الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 148 واضح طور پر یہ حکم دیتی ہے کہ ایسی درخواست کے دائیر کئے جانے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کرتے ہوئے 120 ایام کے اندر اس کا فیصلہ کیا جائے، جبکہ درخواست گزار کی یہ پیٹیشن ستمبر 2018سے ابتدائی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکی اور نہ ہی موجودہ اسمبلی کی مدت کے دوران اس کا فیصلہ ہوتے دکھائی دے رہا ہے جس سے نہ صرف درخواست گزار اپنے طے شدہ آئینی و قانونی حق سے محروم رہے گا بلکہ قومی اسمبلی کے اس حلقہ 144 جھنگ 1 کیعوام اس عرصہ کے لئے اپنی حقیقی نمائیندگی سے محروم رہیں گے۔ صد افسوس کہ نظام عدل اس ایکٹ کے تقاضوں کے بالکل برعکس، فوری انصاف مہیا کرنے میں مکمل ناکام رہا اور یہ کہ درخواست گزار کہ اس معاملے ’’انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف کی فراہمی کو مسترد کئے جانے کے مترادف ہے‘‘ کے سنہری اصول کو مکمل طور پر فراموش کرتے ہوئے اسے اس کے قانونی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔نظام عدل کی ایک اور انتہائی قابل قدر روائیت اور اصول کہ ’’انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے‘‘ کو بھی پوری طرح پس پشت ڈالتے ہوئے بیان کردہ معاملے میں اپنے فرائیض سے غفلت کے مرتکب کسی زمہ دار و اہلکار کے خلاف کوئی بھی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی تاکہ آئیندہ کے لئے مثال بن سکے، گویا اگرانصاف ہوا ہی نہیں تو ہوتا نظر کیا آتا۔ جناب عالی! معزز الیکشن ٹریبیونل کی جانب سے ایسی متعدد الیکشن پیٹیشنز پر فیصلہ دئے جانے کے بعد متاثرہ فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائیر کی گئیں جو کہ وہ بھی چھ سات ماہ گز جانے کے باوجود تاحال بار یابی کی منتظر ہیں۔ جناب عالی! اس امر کا بھی نوٹس لیا جانا چاہئے کہ جیسے الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کی قانونی زمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوا۔ جبکہ حد بندی کے لئے انوکھا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات سے بھی پہلو تہی کی گئی۔جناب عالی ! قومی اسمبلی کی آئینی مدت 60 ماہ میں سے 15 ماہ پہلے ہی گزر چکے یعنی اسمبلی اپنی 25 فیصد عمر پوری کر چکی جبکہ درخواست گزار کی الیکشن پیٹیشن ابتدائی مدارج میں ہی رکاوٹوں کا شکار ہے اور جبکہ صورتحال کے مد نظر یہ پیٹیشن اس اسمبلی کی مقررہ آئینی مدت میں واضح طور پربے نتیجہ ہی نظرآ رہی ہے۔ایسی صورتحال میں درخواست گزار کے پاس ماسوائے اس کے وہ اپنی الیکشن پیٹیشن زیر احتجاج واپس لے لے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا، درخواست گزار نے تمام حقائیق جناب کے سامنے رکھ دئے ہیں جن کی موجودگی میں یہ استعدا بھی کرتا ہے کہ ایسے دیگر معاملات کا بغور جائیزہ لیا جائے اوردیگرمتاثرین کی داد رسی رسی کی جائے تاکہ عوام الناس کا عدلیہ پر اعتماد بحال رہے اور انصاف کا بول بالا ہو