سنجرانی حیدری رابطہ: آج ملاقات
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا، گذشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر اور مذاکراتی ٹیم کے ممبرشفقت محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پاناما کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ اس پر تحقیقات کی جائے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔ ہماری جانب سے بار بار بات کرنے کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت سے حل کریں، تاہم اگر آپ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو پھر جو افراتفری پھیلے گی، ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اْن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے ، لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے، ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔ ہمیں پاکستان کی فکر ہے، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟، ہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دیے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو پھر کہا جائے گا کہ حکومت یہ کر رہی لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت کرتے ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا، ملک کو پیچھے لے جانے کا ہے تو یہ پھر بات نہیں کریں گے۔ ہم نے سینئر لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی ہے، جس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو کیوں شامل کیا، تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس معاملے کو سنجیدہ لینا چاہتے ہیں اور اسی لیے سینئر لوگوں کو شامل کیا ہے۔انہوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ملک کی تمام جماعتوں سے اپیل کی کہ اگر ملک کے ہمدرد ہیں اور پاکستان سے محبت ہیں تو بیٹھ کر بات کریں، اگر آپ کا کوئی مطالبہ ہے تو سامنے رکھیں ہم خیرمقدم کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے پیچھے کس کا ایجنڈا ہے، اگر یہ کسی اور کے ایجنڈے پر چلیں گے تو سب سامنے آجائے گا، پھر یہ چھپ نہیں سکتے اور انہیں سزا ملے گی ، اس میں چیئرمین سینٹ کو بھی شامل کیا گیا کیوں کہ ان کی ایک جماعت ہے جبکہ اگر اس میں وزیراعلیٰ بلوچستان آتے ہیں تو انہیں بھی شامل کیا جائے گا جبکہ جہاں تک چوہدری پرویز الٰہی کی بات ہے تو ان کی بھی اس کمیٹی میں شامل ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اگر مولانا فضل الرحمٰن لانگ مارچ کی کال واپس نہیں لیتے تو پھر حکومت موجود ہے اور جو حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، یہ پھر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں ایسی چیز برداشت نہیں ہوگی اور اس پر کارروائی کریں پرویز خٹک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ہم ناکام ہوگئے تو پھر جو ہوگا اس کی ذمہ داری تمام اپوزیشن جماعتوں پر ہوگی، ہم نہ کسی سے این آر او نہیں چاہ رہے، جمہوری ملک میں مذاکرات ہوتے ہیں ، اگر نریندر مودی کو خوش کرنا ہے اور ملک دشمنی کرنی ہے تو یہ بات نہیں کریں گے لیکن اگر یہ ملک کے ہمدرد ہیں تو یہ بات کریں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق انہوں نے کہا کہ پابندی لگتی رہتی ہیں اور یہ چلتا رہتا ہے، ساتھ ہی شفقت محمود نے کہا کہ ہمارا آئین و قانون بھی کہتا ہے کہ مسلح گروپ کی پاکستان میں اجازت نہیں اور اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے گزارش کروں گا کہ سیاسی گفتگو تو چلتی رہتی ہے لیکن میں نے ان کی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں، جس میں وہ اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لہٰذا اس قسم کی سطح پر نہ پہنچیں، جہاں وہ ریاست کے ستونوں پر حملہ کریں کیونکہ پھر اس قسم کی چیز برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری سے پہلا باضابطہ رابطہ کر لیا۔ اس حوالے سے عبدالغفور حیدری نے بتایا کہ چیئرمین سینٹ نے ٹیلی فون کیا تھا ہماری آج شام ملاقات طے ہو گئی ہے۔ حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو دروازے کھلے ہیں۔ صادق سنجرانی آزادی مارچ کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ پر واضح کر دیا کہ ہمارا مؤقف کلیئر ہے اپنا موقف دہرایا۔ وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہی باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔حتمی فیصلہ فضل الرحمان کرینگے۔ میرے واضح مؤقف کے باوجود چیئرمین سینٹ ملاقات کے خواہاں ہیں اب دیکھتے ہیں حکومتی ٹیم کیا تجاویز اور سفارشات لیکر آتی ہے۔
ملتان (نمائندہ نوائے وقت) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت عالمی برادری کی کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں شوشہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی حالات خراب ہونے پر بھارت میں خوشی کی لہر ہے۔ دھلی سمجھتا ہے کہ پاکستان اگر اپنے اندرونی مسائل میں الجھتا ہے تو انکی کشمیر پر سے توجہ اٹھ جائے گی، ہماری گزارش ہوگی کہ مارچ والے بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے پاکستان کے مخالفوں کو تقویت ملے۔ آزادی مارچ والوں سے ایسے نمٹیں گے جیسے جمہوریت میں نمٹا جاتا ہے۔ کوشش ہوگی کی کہ مارچ والے اپنا اظہار پرامن انداز میں کریں، لیکن ڈنڈا بردار فورسز کی آئین میں گنجائش نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہے، پاکستان میں مارشل لاء کا کوئی چانس نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کو ملکی و عالمی حالات کا مکمل ادراک ہے۔ سیاست میں ہمیشہ مذاکرات کی گنجائش ہوتی ہے وزیراعظم نے پرویز خٹک کی قیادت میں کمیٹی بنائی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز این اے 156میں لوہا مارکیٹ کے تاجر حفیظ بندا کی اپنے ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ تقریب سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چیف وہیپ قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر‘ صوبائی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات ندیم قریشی‘ صوبائی معاون خصوصی حاجی جاوید اخترانصاری‘ میاں جمیل احمد‘ راناعبدالجبار‘ منور قریشی‘ بابرشاہ‘ سیدہ شہربانوبخاری‘ سید اصغر نقوی سمیت معززین علاقہ کی ایک بہت بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کوششوں کے باوجود پاکستان بلیک لسٹ نہیں کروا سکا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں ضمنی انتخاب میں پی پی کی بدترین شکست پر وزیر خارجہ نے کہا، بلاول کے حلقے سے معظم عباسی کا جیتنا تبدیلی کی طرف ایک اشارہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچی ہے۔انہوں نے کہا سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ بلاول بھٹو نے 5دن پی ایس 11الیکشن کی مہم چلائی۔ اسی حلقے سے بلاول بھٹو رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بلاول بھٹوالیکشن کے نیتجے پر اپنی قیادت سے نالاں ہیں۔ بلاول کی ناراضگی کے باعث سندھ کابینہ میں تبدیلی نظر آئے گی۔ پہلے ہی کہ دیا تھا سندھ میں آئندہ حکومت پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی ہوگی۔ انہوں نے کہا پی ایس 11کا نتیجہ پہلا قطرہ ہے۔ انہوں نے کہا معاشی استحکام کے بعد ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج افراط زر ہے جس پر ہمیں قابو پانا ہے۔ پاکستان معاشی استحکام کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کے عوام سیاسی سمجھ رکھتے ہیں اور کسی انتشار کا شکار نہیں ہونگے۔ برطانوی شاہی جوڑے کے دورہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ شاہی جوڑے کے دورے سے پاک برطانیہ خیر سگالی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں افغانستان دھماکے میں شہادتوں کی میں مذمت کرتا ہوں۔ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملیشیاز اور ڈنڈا بردار فورسز کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی سے سوال ہوا کہ کیا مولانا فضل الرحمن کی گرفتاری متوقع ہے؟ اس پر وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ یہ اندرونی معاملہ ہے، میرا زیادہ تجربہ ملک کے خارجی معاملات کا ہے۔
لاہور (سٹاف رپورٹر) وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ گائوں کے سارے سیاسی چوہدری مرجائیں تب بھی مولانا کو اقتدار نہیں مل سکتا مجھے فضل الرحمان سے زیادہ دینی مدارس کی فکر ہے، مولانا ڈنڈا برداروں کو ایسے دکھا رہے ہیں جیسے دہشت گرد تیار ہو رہے ہیں، مذاکرات کے دروازے بند کرنا ملکی جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے اگر شب خون مارا گیا تو 400سے 600لوگ اندر ہوں گے مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور پھر الیکشن میں کود پڑے، سارے سیاستدان ایک این آر او کی مار ہیں،جن کے اشاروں پر مولانا کھیلنے جا رہے ہیں، ان کی سیاست بھی تباہ ہو گئی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے ابھی تک دھرنے کی کوئی بات نہیں کی، دھرنا ابھی گرے لسٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گائوں کے سارے سیاسی چوہدری مرجائیں تب بھی مولانا کو اقتدار نہیں مل سکتا، جن کے اشاروں پر مولانا کھیلنے جا رہے ہیں، ان کی سیاست بھی تباہ ہو گئی، دھرنا دھندلا ہو چکا ہے، فضل الرحمان کو فیس سیونگ دی جا سکتی ہے۔ میری درخواست تاخیر سے سنی گئی لیکن وزیراعظم عمران خان نے کمیٹی بنا دی، با بار جمہوریت کو شب خون لگا تو فیصلے جلد ہوں گے، اگر شب ،خون مارا گیا تو 400سے 600لوگ اندر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب امریکیوں سے کہتے تھے مجھے لے کر آئو، مولانا صاحب کہتے تھے وزیرستان میں ٹھیک کر کے دکھائوں گا۔ مذاکرات کے دروازے بند کرنا ملکی جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے،پاکستان تحریک انصاف سمیت 36پارٹیوں نے فیصلہ کیا تھا الیکشن نہیں لڑیں گے، مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور پھر الیکشن میں کود پڑے، جو یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے سے مسائل حل ہوں گے وہ عقل کا اندھا ہے، نیشنل ایکشن پلان ان ایکشن ہے، اس وقت جو ملکی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں وہ سیاسی خلفشار پر بھی فکر مند ہیں، اگر جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو ایک ایک سال سے پڑے کیسوں کے فیصلے جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ کی طرح ہوں گے، پہلی بار پاکستان میں خوشگوار حالات ہیں، پاکستان معاشی گاڑی چل پڑی ہے، مولانا فضل الرحمان کو اقتدار نہیں مل سکتا، سارے سیاستدان ایک این آر او کی مار ہیں۔ فضل الرحمان نے بے نظیر کو سیاسی طور پر استعمال کیا، دھرنا ابھی گرے لسٹ میں، بہت نازک وقت ہے، مجھے فضل الرحمان سے زیادہ دینی مدارس کی فکر ہے، یہ لوگ پیسے لے کر لوگوں کو نوکریاں دیتے تھے، میں ایک سال لوگوں کو نوکریاں دوں گا، وزیراعظم عمران خان نے ہر جگہ ایم ایل ون کی بات کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کسی صورت این آر او نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد نہیں آئیں گے، بلاول بھٹو کو میں سمجھا لوں گا،مہنگائی بڑھنے کی وجہ ہم اور ذمہ دار شریف برادران اور آصف زرداری ہیں، یہاں لوگوں نے لبرل ازم اور دیگر ممالک کے نظام کی بات کی ہے، سیاست کیلئے وقت بڑا اہم ہوتا ہے، جب بھی علماء نے تحریک چلائی اس ملک میں مارشل لاء لگا ہے، نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری نے ملک کو بے دردی سے لوٹا، انہوں نے ملک کو صرف لوٹا نہیں بلکہ پاکستانی معیشت کو نوچا ہے،مدرسے دین کے مینار ہیں اور میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں، اسلام آباد کی دھوپ میں دین کی قوتوں کو خراب نہ کریں۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی زیر صدارت ریلوے ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں چیئرمین ریلوے چیف ایگزیکٹو آفیسر ریلوے، آئی جی پولیس ریلوے سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں سی ای او ریلوے نے ترقیوں کی آمد و رفت میں تاخیر سے متعلق بریف کرتے ہوئے بتایا کہ مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت کا شیڈول معمول پر آچکا ہے۔ اجلاس میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی ریلوے سٹیشنوں پر فوڈ سٹریٹ بنانے اور بوگیوں کی مرمت کروانے کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ٹرینوں کی بروقت آمد اور روانگی پر انکا فوکس ہے۔ اگر مسافر ٹرینوں کا شیڈول واقعی ٹھیک کرلیا گیا ہے تو اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔ شیخ رشید نے ہدایت کی کہ پاکستان ریلوے کے پاس جو قیمتی اراضی ہے اسے استعمال میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ریلوے کے شعبہ مارکیٹ پر اپنی نظر مرکوز کر رکھی ہے۔ اگر ریلوے کمائے گا تو مزدوروں کے چولہے جلیں گے اور مسافروں کو سہولتیں فراہم کی جاسکیں گی۔