مولانا فضل الرحمان کا دھرنا مؤخر!
بالآخر جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی ’’ دھرنا ‘‘ اور’’ اسلام آباد لاک اپ‘‘ موخر کرنے اور 31اکتوبر2019ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں ’’شو آف پاور‘‘ کرنے کی تجویز قبول کر لی ہے۔ مولانا اور فضل الرحمنٰ ڈی چوک اسلام آباد کے جلسہ میں حکومت کو اپنا ’’چارٹر آف ڈیمانڈ ‘‘ پیش کرینگے اور صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرینگے ۔ مولانا فضل الرحمنٰ کی جانب سے ’’ دھرنا‘‘ اور اسلام آباد لاک اپ‘‘ کے بارے میں معنی خیز ’’خاموشی‘‘ کو سیاسی حلقوں میں ’’ڈیسیپشن پلان ‘‘ Decepetion planقرار دیا جا رہا ہے ۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمنٰ نے میاں نواز شریف کی ’’درخواست‘‘ کو قبول کر لیا ہے لیکن ان کے ذہن میں اسلام آباد پہنچ کر حکومت کیلئے چونکا دینے والا اعلان ہے جس بارے میں وہ کسی سے شیئر نہیں کر رہے۔ تاہم انہوں نے حالیہ ملاقات میں مسلم لیگی رہنمائوں کو اپنے آئندہ لائحہ عمل بارے میں ’’اعتماد ‘‘ میں لے لیا ہے اس لئے وہ اپنی تاش کے پتے دکھانے کیلئے ’’گریزاں ‘‘ ہیں۔ مسلم لیگی رہنمائوں نے بھی مولانا فضل الرحمنٰ کو پہلے مرحلے میں حکومت کو گرانے کی کیلئے ’’سیاسی لشکر کشی‘‘ کرنے کی بجائے تحریک چلانے کیلئے ’’ماحول ‘‘ پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اقتدار کا ’سومنات ‘‘ کو گرانے کیلئے بار بار ’’ریڈ زون پر حملہ آور ہو کر حکومت کو مفلوج بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔مسلم لیگی رہنمائوں نے مولانا فضل الرحمنٰ سے کہا ہے کہ ’ پرامن ’آزادی مارچ ‘‘ کے قافلوں کو اسلام آباد کی جانب روکنے میں حکومت کو پہل کرنے کا موقع دیں۔ پر امن قافلوں کو جگہ جگہ روکنے سے’’ امن و امان ‘‘ کی تباہی کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ اسلام آباد کی جانب سے بڑھنے والے قافلوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے سے خود بخود شاہراہیں ’’میدان کارزار‘‘ بن جائیں گی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر مسلم لیگی رہنمائوں سے ہونے والی ملاقات کے دوران ’’دھرنا‘‘ اور اسلام لاک ڈائون‘‘ کا ذکر آیا تو جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنمائوں نے وضاحت کر دی۔ ہم نے کبھی ’’دھرنا ‘‘ اور اسلام آباد لاک ‘‘ کے الفاظ استعمال ہی نہیں کئے‘ یہ نام میڈیا کی طرف سے دئیے گئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علما اسلام (ف) کی قیادت کے درمیان پچھلے کئی دنوں سے ’’ملاقاتوں ، رابطوں اور پیغام رسانی ‘‘کا سلسلہ جاری تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے ’’ طرز عمل ‘‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی تھی کہ ’’مفاہمت‘‘ کا بادشاہ آزادی مارچ میں شر کت نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے لیکن 18اکتوبر 2019ء کو ’’ ظہرانہ‘‘ پر ہونیوالی شہباز شریف فضل الرحمنٰ ملاقات 31اکتوبر 2019ء کو اسلام آباد میں اپوزیشن کے مشترکہ جلسے کے اعلان پر ختم ہوئی کہ اس جلسے میں جہاں اپوزیشن ’’چارٹر آف ڈیمانڈ ‘‘ پیش کریگی‘ وہاں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائیگا۔ 27اکتوبر سے ملک کے مختلف شہروں سے آنیوالے قافلے 31اکتوبر کو ہی اسلام آباد پہنچیں گے۔ میاں شہبا زشر یف نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے نکتہ نظر کو قبول کرنے پر مولانا فضل الرحمن کی ٹیم کو دل کی اتھا گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا ۔ بنی گالہ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پا کستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں جہاں آزادی مارچ موخر کرنے کیلئے اپوزیشن سے مذاکرات کی کیلئے کمیٹی قائم کی گئی‘ وہاں آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلا آباد کی جانب بڑھنے سے روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت جمعیت علما ء اسلام کے رضاکاروں کی پریڈ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ شنید ہے کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ’’ڈنڈا بردارفورس‘‘ پر پابندی لگانے کا بھی جائزہ لیا ہے لیکن اسے ایسی کوئی شق نہیں ملی جس کی آڑ میں ’’ڈنڈا بردار فورس ‘‘ رضا کاروں پر پابندی عائد کر سکے۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا روکنے سے متعلق تیسری درخواست بھی خارج کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’’جمہوری احتجاج ‘‘ کو اپوزیشن کا حق تسلیم کیا ہے اور کہا کہ 2014ء کے دھرنے میں بھی ہائی کورٹ اس حق کو تسلیم کر چکی ہے لہذا ہائی کورٹ اپوزیشن کے احتجاج کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’ کوئی ملک ایک سال میں دوبارہ انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی ملیشیا ء کی بھی گنجائش نہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے پرویز خٹک کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی ہے جو مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کریگی۔اگر کسی کو غلط فہمی ہو کہ ہمیں کوئی خوف ہے تو ایسا نہیں ہے۔ دھرنوں سے حکومتیں نہیں گرتیں۔ کسی کو لٹھ برداری کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔ ہمیں دھرنے کا 126 دن کا تجربہ ہے، ہم اپوزیشن جماعتوں کی بات سننے اور مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کرنے کیلئے تیار ہیں ‘‘۔
جوں جوں آزادی مارچ کی تاریخ قریب آرہی ہے مولانا فضل الرحمن کے رویہ میں بھی سختی آرہی ہے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے بڑی معنی خیز بات کہی ہے ’’ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے ،لیکن اداروں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں ‘ کوئی مارشل لاء کا نہ سوچے ایسی کوئی کوشش کی گئی تو آزادی مارچ کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جائیگا‘‘ اب تو وفاقی ریلویز شیخ رشید احمد انہیں مذاکرات کا دروازہ بند نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور کہا ہے مذاکرات کا دروازہ بند کرنے سے حادثات جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے علما ء کرام کی تحریک کے نتیجے میںمارشل لاء لگنے کے خدشہ کا اظہار کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ڈی چوک اسلام آباد میں 31اکتوبر 2019ء ’’شو آف پاور‘‘ کرنے پر آمادہ کرگئے ہیں‘ وہاں انہوں نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی جانب سے فی الحال دھرنا موخر کرنے کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمنٰ سے اپوزیشن کی جماعتوں کے رہنمائوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
٭…٭…٭