• news
  • image

ڈینگی پر کیسے قابو پایا جائے

گزشتہ ایک دہائی کے ڈینگی وائرس کے وبائی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے تکنیکی ماہرین کے اندازوں کیمطابق سال 2019 ڈینگی کے زور کا سال ہے۔ سال 2011 میں پنجاب میں پہلی دفعہ ڈینگی کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جب اس بیماری کی وجہ سے 350اموات ہوئیں اور مجموعی طور پر کیسز کی تعداد بیس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہو ئے صوبہ بھر میں پہلی بار ڈینگی کے تدارک او رکنٹرول کیلئے بڑے پیمانے پر کام شروع کیا گیا۔ اگلے دو تین سال میں کیسز میں کمی دیکھنے میں آئی۔ لیکن 2015 میں ڈینگی نے پھر سر اٹھایا، سلسلہ وہیں سے شروع ہوا، 4213 افراد بیمار ہوئے۔لیکن اس سے اگلے سالوں میں پھر کمی دیکھنے کو ملی۔ ٹھیک چار سال بعد سال 2019 میں پھر ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس سال اب تک 6919 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اکثریت سرکاری ہسپتالوں سے علاج کی سہولیات سے استفادہ کر چکی ہے۔ مگر فوری طور پر نئے کیسز کو روکنا اس وقت سب سے اہم ہے۔
چونکہ اس بیماری کی کوئی ویکیسن نہیں ہے، اس لیے بچاؤ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ بچاؤ کیلئے سب سے اہم عنصر نگرانی کا مؤثر نظام اور مچھروں کوبڑھنے سے روکنا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ہمیں نو سال قبل ہو گیا تھاکہ ڈینگی محض ایک وبائی یاطبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سما جی مسئلہ بھی ہے۔ سیاسی اور انتظامی طور پر صوبہ کی ا علیٰ ترین قیادت کی جانب سے اسکی سربراہی کئے بغیربیماری پر قابو پانا بہت مشکل ہو گا، حکومتی کوششوں کے ساتھ یہ نہائت اہم ہے کہ ہر گھر اورہر فرد اسے اپنا مسئلہ سمجھے۔ چنانچہ ایک نظام قائم کیا گیا جس کے تحت سنٹرل ایمر جنسی رسپانس کمیٹی کی سربراہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے سپردہوئی جس کے بعد وزیر صحت کی سربراہی میں کیبنٹ کمیٹی اور دیگر اداروں اور تحصیل اور یونین کونسلز کی سطح تک ذیلی کمیٹیاں قائم ہوئیں جوڈینگی کے تدارک کے تمام SOPs پر عملدر آمدکو یقینی بناتی ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں کیبنٹ کمیٹی نے وبائی امراض کے ماہرین کی سفارشات کی روشی میں اضلاع کو ہدایات جاری کیں کہ یہ سال ڈینگی کے پھیلنے کے حوالے سے بہت اہم ہے اس لیے مچھروں کی افزائش کے حوالے سے حساس علاقوں میں نگرانی کے نظام پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مارچ کے مہینے سے لیکر اب تک حکومت کی جانب اضلاع کو بارہا یاد دہانی کروائی جاتی رہی کہ اس سال ڈینگی کے پھیلنے کے خدشات بہت زیادہ ہیں اس لیے حساس علاقوں میں مچھروں کی افزائش کو روکنے اور لاورا تلف کرنے کے کام میں غفلت نہ برتی جائے۔تاہم جون میں کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس میں اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ راولپنڈی شہر اور خاص طورپرپوٹھوہار ٹائون میں مچھروں کی افزائش کے حوالے سے نگرانی کی ٹیموں نے کچھ اہم علاقے نظر انداز کر دئیے ہیں۔
اگرچہ اس لاپرواہی کے ذمہ دار افسران اور سٹاف کے خلاف انضباطی کاروائی عمل میں لائی گئی مگراس وقت تک سلسلہ لاروا سے مچھر تک جاچکاتھا۔ گویا کہ راولپنڈی میں وبا کا آغاز ہوچکا تھا۔
خرا بی ء بسیارکے سبب طے پایا کہ روایتی انتظام کافی نہیں۔بات انتظامی و تکنیکی کمیٹیوں اور میٹنگز سے ایک قدم آگے نکل چکی ہے۔ سو فوری طور پر کیس رسپانس کا آغاز کیا گیا جس سے وبا کو مزید علاقوں میں پھیلنے سے روکا گیا۔ اس وقت محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے سیکریٹری کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد عثمان کی سربراہی میں محکمہ کی تکنیکی اور انتظا می ٹیم راولپنڈی میں موجودہے جو اس کیس رسپانس کے تمام پہلووں کی مکمل نگرانی کر رہی ہے۔ میں خود بھی ہفتہ میں کم از کم ایک بار راولپنڈی کا دورہ کر رہی ہوں اور اس دوران ضلعی کمیٹی کی جائزہ میٹنگز میں کارکردگی کے تجزیئے کے علاوہ فیلڈ سٹاف کے کام کی مانیٹرنگ اور لاروا تلف کرنے کے عمل کی خود نگرانی کر رہی ہوں۔ سب سے اہم یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجا ب سردار محمد عثما ن بزدار خود کئی بار راولپنڈی، سرگودھا اور فیصل آباد میں ضلعی کمیٹیوں کے اجلاسوں کی سربراہی کے دوران وہاں تدارک اور علاج کی سہولیات کا جائزہ لے چکے ہیں۔
علاج پر خصوصی توجہ دیتے ہو ئے راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ایمر جنسی کا فوری نفاذ کیا گیا ہے۔ہسپتالوں کو ہدایات جاری کئی گئی ہیں کہ ڈینگی کے مریضوں کا داخلے کے بعدفوری طور پر15 منٹ کے اندر معائینہ کیا جائے۔
سرکاری ہسپتالوں میں مفت ڈینگی ٹیسٹس کے علاوہ ڈینگی مریضوں کے علاج کیلئے دیگر تمام ٹیسٹسکی سہولیات جیسے کہ LFTs مکمل طور پرمفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں فوری طور پر 1200بیڈز کا انتظام کیا گیا ہے۔ گزشتہ چھے ہفتوں میں (اس مضمون کے لکھنے تک) ڈینگی کے علاج اور تدارک کے حوالے سے کو ئی شکایت موصول نہیں ہو ئی۔ پانچ موبائل ہیلتھ یو نٹس کو فوری طور پر راولپنڈی روانہ بھی کیا گیا تاکہ متاثرہ علاقوں میں ڈینگی کے مفت ٹیسٹس کرنے کے علاوہ بیماری کو کنٹرول کرنے کی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے۔ کیس رسپانس پر جانفشانی سے کام کیا گیاہے جس سے الحمدللہ ہمیں کافی مثبت نتائج ملے ہیں۔
راولپنڈی میں گزشتہ تین ہفتوں سے کیسز میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔تیس ستمبر کو 186 کیسز رپورٹ ہوئے تھے اورتین دن قبل 16 اکتوبرتک کیسز کی تعداد 119تھی۔اہم بات یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کیسز میں کمی آ رہی ہے۔ مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر گزشتہ چار ماہ میں صوبہ بھر میں ڈینگی کے عملے کی 7235خصوصی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ جدید خطوط پر انکی ٹریننگ کے علاوہ انکی کارکردگی کی مانیٹرنگ کا نظام بھی وضع کیا گیا ہے۔ افرادی قوت میں اس اضافے کی مدد سے حساس مقامات کی نگرانی اور لاروا تلف کرنے کے نظام میں بہت بہتری آئیگی۔
یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ڈینگی کی بیماری ایک عالمی وبا کی صورت میں سامنے آئی ہے اور خاص طور پر ایشیا میں حیران کن حد تک تیزی سے پھیلی ہے۔ فلپائن میں سال 2019 میں کیسز کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں دگنا سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس سال اب تک 322,694کیس رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ سال 2018 میں 149,849تھے۔ تھائی لینڈ میں سال 2018 میں اس بیماری سے 37000 افراد متاثر تھے اور اس سال اب تک یہ تعداد 136000سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح ملائشیا میں 2018 میں 53800 کیسز تھے جو اب بڑھ کر 102,734تک جاپہنچے ہیں۔ کمبوڈیا میں کیسز کی تعداد صرف ایک سال میں 6000 سے بڑھ کر 38000 تک جا چکی ہے۔ ویت نام میں گزشتہ ایک سال میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد 37200 سے بڑھ کر 124,751 تک چلی گئی ہے۔گزشتہ ایک سال میں صرف سنگا پور میں کیسز کی تعداد 2000 سے بڑھ کر 12840 تک جا چکی ہے اور وہاں اگرچہ اس پر تحقیق جا ری ہے لیکن خاطر خواہ کامیابی ابھی تک نہیں ملی۔یہ بیماری اس وقت دنیا کے 110ممالک میں موجود ہے اور بہت تیزی سے گرم مرطوب علاقوں سے ملحقہ خطوں تک تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ تاہم غور طلب نکتہ یہ ہے کہ تحقیق کے حوالے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اسے قابو پانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
ڈینگی وائرس کے مؤثر علاج کی تحقیق کا سفر عالمی سطح پر جاری ہے۔ ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی کا مستقل جائزہ لیتے رہیں اور بدلتے وقت کے ساتھ نئے سبق سیکھتے ہوئے مزید بہتری کی سعی جاری رکھیں۔ ایک بات بہر طور یقینی ہے کہ آگہی اور شعور پیدا کرنے کے بعد ڈینگی کنٹرول کے کام میں عوامی شمولیت سے ہی پر اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ میرا یہ یقین ہے کہ اہل عزم و ہمت کیلئے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن