• news

اچانک دورہ افغانستان، طالبان سے امن مذاکرات میں خواتین کی شمولیت ضروری ہے: سپیکر نینسی پلوسی

واشنگٹن ( آن لائن )امریکا کے ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی اور کانگریس کے سینئر ارکان غیر علانیہ دورے پر افغانستان پہنچ چکے ہیں۔نینسی پلوسی اتوار کو کابل پہنچیں جہاں انھوں نے افغان صدر اشرف غنی، امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر اور امریکی فوج کے کمانڈروں و فوجیوں سے ملاقاتیں کیں۔نیسنی پلوسی نے افغانستان کا دورہ ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر بھی اسی روز افغانستان پہنچے ہیں۔ہاؤس سپیکر اور وزیر دفاع کے بیک وقت دورہ افغانستان کو 'اتفاق' قرار دیا جا رہا ہے۔ جب کہ مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد امن معاہدے کا حصول ہے اور آگے بڑھنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔نینسی پلوسی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے صدر کے مواخذے کی تحقیقات کا بھی اعلان کر رکھا ہے جب کہ ان کے اچانک دورہ افغانستان کو بھی خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر بھی افغان صدر اشرف غنی اور امریکی فوجیوں سے ملاقات کریں گے۔ دورہ افغانستان کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ایک سیاسی معاہدے پر پہنچ جائیں گے اور اس سے وہ مقاصد حاصل ہوں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے بیان میں نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ہونے والی کوششوں سے متعلق ان کے وفد کو امریکی سفارت کاروں نے بریفنگ دی ہے۔ وہ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سول سوسائٹی کے رہنماوں اور خواتین سے بھی ملاقاتیں کریں گی۔نینسی پلوسی کا مزید کہنا تھا "ہم سمجھتے ہیں کہ قیام امن کے لیے مذاکرات میں افغانستان کی خواتین کی شمولیت بھی ضروری ہے۔"یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والے ایک دھماکے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان سے امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ درایں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے سینئر ارکان کانگریس کی معیت میں اردن کے دورے کی شدید مذمت کی ہے جس میں انھوں نے اردنی حکام کے ساتھ شام کی صورت حال پر تبادلہ کیا۔
کابل (نیوز ایجنسیاں) طالبان کے ساتھ امن معاہدہ نہ ہونے کے باوجود امریکہ خاموشی سے افغانستان میں فوج کی تعداد کم کررہا ہے۔ امریکی کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے نیوز کانفرنس میں کہا گزشتہ برس 2000 تک فوجی نکالے تھے۔ یہ تعداد 12 سے 13 ہزار کے درمیان ہے۔ ایک اور امریکی اور افغان عہدیدار نے تصدق کی کم ترین سطح 8600 اہلکاروں تک رکھی جائے گی۔ فوج میں کمی کے پلان کی افغان حکومت نے منظوری دے دی۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ترکی سے کردجنگجوئوں کے تحفظ کا نہیں لیکن افغان سکیورٹی فورسز سے تعاون کا عزم ہے کیونکہ افغانستان میں ہم نے اربوں ڈالر صرف کئے ہیں۔ افغان اور امریکی عوام نے پیسے اور فوجیوں کی قربانی دی ہے۔ شام سے فوجی انخلاء کا افغانستان سے موازنہ نہ کیا جائے افغانستان میں صورتحال بہت مختلف ہے۔

ای پیپر-دی نیشن