کشمیر علامہ اقبال کی نظر میں
علامہ اقبال کو کشمیر سے قلبی لگاؤ تھا اس لیے نہیں کہ وہ کشمیری الاصل تھے۔ اہالیان کشمیر کی مظلومیت نے اقبالؒ کے قلبِ احساس سے کشمیر کی یاد کبھی محو نہیں ہونے دی۔ علامہ اقبال نے جا بجا کشمیر کا تذکرہ کیاہے۔ کشمیر سے متعلق کلام اقبال کے کچھ ٹکڑے پیش کیے جا رہے ہیں۔ ٭میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے۔ (ایک مکتوب)٭کشمیر کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں کہ میں واقعات کے اس پس منظر کو بھی بیان کروں جو اس ملک میں حال ہی میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ایسی قوم کا بظاہر اچانک قیام جس کا شرار خودی قریباََ مردہ ہو چکا تھا، باوجود ان مصائب کے جو اس قیام کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے مسرت کا باعث ہے، جس کی نگاہ آزادی کے محرکات پر ہے۔ (صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام خط 1925ئ)
’’ارمغانِ حجاز ‘‘ میں سے۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ، دہقانِ پیر
آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیرگیر؟
علامہ اقبال گو کشمیری الاصل تھے لیکن کشمیری زبان نہ جانتے تھے۔ جب ہم کشمیری شاعری کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مقصود صرف کشمیری زبان میں شاعری ہی نہیں بلکہ اس زمرے میں وہ کشمیری شعرا آتے ہیں جنہوں نے زیادہ تر فارسی زبان کو اپنے شاعرانہ جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ لٹریچر بہت وسیع ہے اور اس ضمن میں محمد علی راشدی نے کشمیر کے فارسی شعرا کے متعلق کئی جلدوں میں ان کے کلام کے حصوں کو جمع کر کے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ کشمیری شعرا میں سے علامہ کو غنی کاشمیری کے کلام سے خاص شغف حاصل تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غنی کاشمیری کے ہاں انہیں اپنے فلسفہ خودی کی جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں مثلاََ غنی کاشمیری کی زندگی کے اس معمول کا ذکر کیا ہے۔ جب وہ گھر کے اندر موجود ہوتے تھے تو دروازے مقفل کر لیا کرتے تھے۔ جب کسی نے ان سے پوچھا، اسکی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ دروازے اس لیے مقفل کرتا ہوں کہ اس مکان میں سب سے قیمتی شے تو میں ہی ہوں۔ چونکہ یہ معمول اقبال کے فلسفہ خودی کی تائید کرتا ہے، اس لیے اقبال کے ہاں غنی کاشمیری کا ذکر ملتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی جوانی میں بہت سے ایسے اشعار کہے ہیں جو ان کی کشمیر کے ساتھ وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔ انکے دل میں کشمیر اور اپنے تباہ حال ہم وطنوں کیلئے جو درد و کرب تھا اسکا عکس انکے بعض اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انجمن کشمیری مسلمانان سے وابستگی کے سبب اقبال کا تعارف لاہور کی کشمیری برادری کے معززین سے ہوا۔ 1896ء ہی سے اس انجمن کی کارروائیوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ یہ انجمن تین مقاصد کیلئے قائم کی گئی تھی۔ اصلاح رسوم شادی و غمی۔ کشمیری مسلمانوںمیں تعلیم، تجارت، صنعت و حرفت اور زراعت کو رواج دینا۔ قوم میں اتحاد و اتفاق بڑھانا۔ مگر یہ انجمن کچھ مدت بعد بند ہو گئی پھر 1901ء میں دوبارہ زندہ کی گئی۔ اسکی کارروائیاں ماہنامہ کشمیری گزٹ میں چھپتی تھیں جسے فوق کی زیر ادارت جان محمد گنائی نے جاری کر رکھا تھا۔ اقبال اس انجمن کے سیکرٹری بنے اور انگلستان سے واپسی پر سیکرٹری جنرل بنا دئیے گئے۔ آپ کشمیریوں کی فلاح و بہبود کیلئے انجمن کی کارروائیوں میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ بالآخر اسی انجمن کی بنیادوں پر آل انڈیا مسلم کاشمیری کانفرنس عالم وجود میں آئی جس نے کشمیر میں بیداری پیدا کرنے اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
اس دور میں انجمن حمایت اسلام سے وابستگی کے سبب علامہ اقبال کی ملی اور عوامی شاعری کی ابتدا بھی ہوئی۔ روزگار فقیر جلد دوم میں شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے تحریر ہے ’’علامہ اقبال کے آباؤ اجداد میں کس نے اور کب کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی، اس بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ خیال ہے کہ اٹھارھویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ ہجرت ہوئی ہو گی۔ ہجرت کرنیوالے بزرگ یا تو علامہ کے دادا کے باپ شیخ جمال الدین تھے یا انکے چار بیٹے تھے جن کے نام شیخ عبدالرحمن، شیخ محمد رمضان، شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ تھے۔ علامہ کے دادا کی پہلی شادی شہر سیالکوٹ کے ایک کشمیری خاندان میں ہوئی۔ اس بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ وفات پا گئیں۔ دوسری شادی جلال پور جٹاں کے ایک کشمیری گھرانے میں ہوئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقبال کے بزرگوں نے کشمیر سے ہجرت کیوں کی؟ اس کا کوئی واضح جواب ہمارے پاس موجود نہیں۔ بقول فوق جب علامہ اقبال کے بزرگ کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تو کشمیر، افغانوں کے ماتحت تھا۔ فوق کے مطابق بزرگان اقبال بانہال سے گزر کر جموں کے رستے سیالکوٹ آئے۔