• news

جو اثاثے ملزم کے نہیں انہیں ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی عزیز چوہدری شیر علی اور سہیل ضیا بٹ کی بریت کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیلیں خارج کردیں۔ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے چوہدری شیر علی اور سہیل ضیا بٹ کی کرپشن مقدمات میں بریت کے خلاف درخواستوں پر الگ الگ سماعت کی۔سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ چوہدری شیر علی نے بطور میئر غیرقانونی الاٹمنٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر غلط کام اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چوہدری شیر علی 1983 میں میئر تھے جبکہ یہ کیس سال 2000 میں بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک گواہ نے بھی یہ نہیں کہا کہ چوہدری شیر علی کے خلاف دباؤ میں آکر بیان دیا، نیب کے اپنے گواہ ہی ایسا کہیں گے تو ملزم کو دفاع کی کیا ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ملزم کا کام اپنے اثاثوں کو ثابت کرنا ہوتا ہے، جو اثاثے ملزم کے ہیں یا نہیں وہ ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔ سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین الدین نے کہا کہ مکی مارکیٹ کا قبضہ بھی چوہدری شیر علی کے پاس نہیں تھا، اس مارکیٹ کی دکانیں ویسے بھی لیز پر تھیں۔ بعدازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب چوہدری شیر علی کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، جن افراد کو زمینوں کی مبینہ غیرقانونی الاٹمنٹ کی گئی، ان کا ملزم سے تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ساتھ ہی عدالت نے نیب کی بریت کے خلاف اپیل کو خارج کردیا۔ دریں اثنا سہیل ضیا بٹ کو بھی کرپشن کے الزامات میں کلین چٹ مل گئی اور عدالت عظمیٰ نے بریت کے خلاف نیب کی اپیلیں خارج کردیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کی اپیلیں زائد المعیاد ہونے پر خارج کیں۔ تاہم دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز 2 ماہ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں، نیب بھی ریاستی ادارہ ہے، اس لیے اپیل کے لیے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم ہونی چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کے لیے نیب نے کوئی درخواست نہیں دی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے سہیل ضیا بٹ پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے، غیر قانونی معاہدہ کرکے اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب چاہتا ہے کہ غلط کام پورا نہ کرنے پر بھی سزا ہو؟ اس پر نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ سہیل ضیا بٹ نے غیرقانونی طور پر پیسے وصول کیے اور کام بھی نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ منگل باغ کے پاس بھی لوگ پیسے دے کر کام کروانے جاتے تھے، جنہوں نے غیرقانونی کام کروایا وہ سب بری ہوگئے جبکہ سہیل ضیا بٹ کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی۔

ای پیپر-دی نیشن