• news
  • image

چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کا مثبت کردار!!!

چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہیٰ ملکی سیاست میں دونوں کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ بالخصوص وہ مختلف اہم معاملات میں ثالث یا رابطے کا مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چودھری شجاعت حسین کی سوچ، سیاسی قد کاٹھ،بصیرت اور اس سیاسی خاندان کی متحرک نمائندگی کرنے والے چودھری پرویز الٰہیٰ نے الجھنوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف معاملات میں موجودہ حکومت کے سخت رویے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تناؤ کی کیفیت اور بات چیت کے بند دروازوں کو کھولنے میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہیٰ کی کوششوں کا بہت نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ بالخصوص گذشتہ چند روز میں میاں نواز شریف کی خراب صحت سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کی وجہ سے تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں حکومت کے لیے درمیانی راستہ نکالنے اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فریقین کو گفتگو کے بند ددوازے کھولنے کی طرف مائل اور گفتگو پر قائل کرنے میں چودھری برادران کا کردار مثبت نظر آتا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور مختلف سیاسی جماعتوں میں رابطے کا سب سے موثر ذریعہ بنے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں گذشتہ دس پندرہ برس میں ایسی کوششوں کی کمی نظر آتی رہی ہے یہی وجہ ہے سول اور عسکری قیادت کے مابین رابطوں کا فقدان ہونے کی وجہ سے اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہ ہو سکا اور اعتماد کی کمی کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ اس وقت اندرونی و بیرونی طور پر ملک کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے ثالثی اور معاملات کو سلجھانے کے لیے فریقین کو گفتگو کے لیے بٹھانا انتہائی اہم ہے۔ یہ کام چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہیٰ کامیابی کے ساتھ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت، ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اہم معاملات میں اعتماد سازی اور پل کا کردار ادا کرتے ہوئے کشیدگی کو کم کروانے میں چودھری برادران کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ آج عمران خان کی طرف سے میاں نواز شریف کے علاج کے لیے نظر آنے والی نرمی کے پیچھے کوئی اور نہیں یہی کوششیں ہیں۔ اسی طرح حکومت کو اس بات پر قائل کرنا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن میاں نواز شریف کی صحت اور علاج کے معاملے میں تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرنے پر قائل کرنے کے پیچھے بھی اسی مفاہمت کی سیاست کا ہاتھ ہے۔ ان کوششوں کاکیا نتیجہ نکلتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ حقیقت ہے سیاسی طاقتوں نے گذشتہ چند برسوں میں اس رویے اور طریقہ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور اس کا سب سے بڑے نقصان جمہوریت کو ہوا ہے اور سب سے زیادہ تکلیف عوام نے اٹھائی ہے۔ مفاہمت کی کوششوں میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا کردار بھی بہت مثبت رہا ہے بالخصوص حکومت اور ن لیگ کے مابین کشیدگی کو کم کرنے اور درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے پنجاب کے تین چودھریوں نے حقیقت میں اعلٰی سیاسی اقدار اور روایات کو زندہ کیا ہے۔ میاں نواز شریف کی طبی سہولیات کی فراہمی اور اس حوالے تمام تبدیلیاں اسی بات چیت کا نتیجہ ہیں جن میں تینوں چودھری متحرک اور موثر انداز میں نظام کی بقاء اور ملک کو بڑے سیاسی بحران سے بچانے کے لیے کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودھری شجاعت کی سیاسی بصیرت اور سیاسی جماعتوں میں ان کے لیے موجود احترام اور چودھری پرویز الہیٰ کی عملی کوششوں کی وجہ سے کئی اہم معاملات میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے اور آزادی مارچ کے حوالے سے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی معاملات کو بہتر بنانے میں چودھری برادران بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی اعلٰی قیادت سے رابطوں میں ہیں اور ملکی صورتحال کے پیش نظر فریقین کے سخت رویے میں نرمی کے لیے کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے چودھری برادران کا بڑھتا ہوا سیاسی کردار ان کے بہتر سیاسی مستقبل کی نشاندھی کر رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کا ان پر اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے اچھے وقتوں میں بھی سیاسی دوستوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی روایت کو زندہ رکھا ہے۔ گورنر پنجاب کا حکومت میں ہونے اور اپوزیشن کے بارے وزیراعظم کے سخت موقف کو جاننے کے باوجود گفتگو کا راستہ نکالنا کے لیے آگے بڑھ کر ذمہ داری لینا ان کی سیاسی تربیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومتی صفوں میں ایسی شخصیات کا ہونا انتہائی اہم ہے کہ جب آگ لگی ہو تو اسے بجھانے والے آگ لگانے والوں سے زیادہ سمجھدار ہوں۔
میاں نواز شریف کی بگڑتی صحت اور اپنے علاج کے حوالے سے ہر قسم کا موقف اور فیصلے کا احترام سب پر لازم ہے۔ پھر بھی صورت حال کی سنجیدگی اور حساسیت کو سمجھے بغیر کچھ حکومتی وزرا سخت الفاظ اور بیانات جاری کر رہے ہیں ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف کی صحت اور ملک کے حالات اجازت نہیں دیتے کہ سیاسی جنگ جاری رکھی جائے۔ اس لیے یہ بہتر ہے کہ وزراء آگ لگانے اور عوام میں نفرت پھیلانے والے بیانات سے گریز کریں۔ اس حوالے سے ہم نے کل بھی سائرن میں تجویز پیش کی تھی کہ وزیراعظم ایسے بیانات پر پابندی عائد کریں۔ وزیراعظم نے اپنے ترجمانوں کو تو میاں نواز شریف کی صحت بارے بیان بازی سے روک دیا ہے انہیں اپنے وزراء کو بھی اس اہم مسئلے پر بیان بازی سے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔
چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ چودھری نثار علی خان بھی اس کڑے وقت میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کا تعلق بہت پرانا اور گہرا ہے ملکی مفاد میں انہیں رنجشیں بھلا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہر وہ شخص جو اس مشکل سیاسی وقت میں کوئی بھی بہتر کام کر سکتا ہے اسے ضرور کرنا چاہیے کیونکہ کوئی چیز ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام سے بڑھ کر نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر گفتگو کے ذریعے مسائل حل کرنے اور بات چیت کے لیے دروازے کھلے رکھنے اور مضبوط کردار کے ساتھ وعدے نبھانے کی روایت کو آگے بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن