صحت کے شعبے میں انتہائی غلط فیصلے
ایک عمومی خیال یہ تھا کہ پاکستان گذشتہ 70 سال سے زائد عرصہ موقع پرستوں اور برسر اقتدار آ کر لوٹ مار کرنے والوں کی آماجگاہ بتا رہا ہے۔ اس لئے اب کسی ایسی جماعت اور لیڈر شپ کو موقع ملنا چاہیے جو حالات کو بدل ڈالے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور عوام کی ایک بڑی تعداد پر امید ہو گئی۔ وزیراعظم بن کر عمران خان کے ابتدائی دو تین خطابات نے لوگوں کو حوصلہ دیا کہ اب بہت کچھ ہونے والا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات بھی کئے۔ اس دوران ریاست کے دو اہم اداروں نے حکومت کو کرپشن کے خلاف کھڑا رہنے کے لئے حوصلہ بھی دیا اور اپنی حصے کا کردار بھی ادا کیا۔ لیکن اب اوپر نیچے جو ہونے لگا ہے اس سے ہر چہرے پر اداسی کے رنگ صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس کے معاملے میں عام ٹیکس دینے والے کے لئے طریقہ کار آسان نہیں بنایا گیا۔ بنکوں کے ذریعے سرمائے کی گردش رک رہی ہے۔ کاروبار کو آسان بنانے کے صرف بیانات آ رہے ہیں عملی طور پر بازاروں میں مندا ہے۔ ایک بڑا کاروبار رئیل اسٹیٹ کا تھا۔ ڈر اور خوف کی فضا میںوہاں سرمایہ جامد ہو گیا ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس کے ذریعے لوگوں کی جیب سے نکالا جانے والا پیسہ (سیل ٹیکس ) زیادہ تر وصول کرنے والے اداروں کی جیب میں جا رہا ہے۔ حال ہی میں فرٹیلائزر اداروں کے ذمہ اربوں روپے معاف کرنے کا معاملہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کو نہ جانے کیا سوجھی کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے متعلق دو انتہائی غیر مناسب فیصلے کر ڈالے۔ صوبہ سرحد میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس 2013ء میں تبدیلیاں کیں اور پھر پنجاب میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ریفارمز) آرڈی ننس 2019ء نافذ کر دیا۔ صحت کی صوبائی وزیر محترمہ یاسمین راشد کا اگرچہ دعویٰ ہے کہ آئین کے تحت اور پنجاب اسمبلی کے آئینی طریقہ کار کو بائی پاس کرتے ہوئے اس آرڈی ننس کے ذریعے ہسپتال سرکاری رہیں گے لیکن اس آرڈی ننس سے متاثر ہونے والے پنجاب کے ان گنت جونیر سینئر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کا کہنا تھا کہ یہ آرڈی ننس ڈاکٹروں، معاون سٹاف اور عوام کے لئے ایک ساتھ نقصان دہ ہونے کے ساتھ تحریک انصاف کی بدنامی اور زوال کا باعث بھی بنے گے۔ وائی ڈی اے نے تو دلائل کے ساتھ دعویٰ کیا کہ اس آرڈی ننس کے نفاذ کے بعدعام مریض رُل جائے گا۔ ہسپتال کا انتظامی بورڈ اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے پرچی فیس سے لے کر ادویات، ٹسٹوں سمیت ہر معاملے کو کاروباری انداز سے دیکھے گا۔ صرف لاہور کی آبادی سوا کروڑ سے زائد ہے کیا حکومت 80 فی صد کو بھی صحت انصاف کارڈ سے سکتی ہے۔ بڑا المیہ ڈاکٹروں کا ہے جن میں سے اکثر آٹھ نو برس سے زائد کی گورنمنٹ سروس کر چکے ہیں۔ اگر ہسپتال کے ملازم رہنا پسند کریں گے تو ان کی برسوں کی سرکاری نوکری کے فوائد ضائع ہوں گے اور اگر ہسپتالوں کو چھوڑ کر واپس سیکرٹریٹ رپورٹ کریں گے تو اکثر خاص طور پر لیڈی ڈاکٹر دور دراز کے علاقوں میں بھیجے جانے پر مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گی۔ ابھی یہ المیہ بیچ میں تھا کہ وفاقی حکومت نے صحت کے شعبے کی ریگولیٹری باڈی یعنی پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر دیا۔ صدر عارف علوی جو خود بھی دانتوں کے ڈاکٹر ہیں پی ایم ڈی سی کی جگہ ایک نئی ریگولیٹری باڈی ’’پی ایم ڈی‘‘ یعنی پاکستان میڈیکل کونسل کے حوالے سے آرڈی ننس جاری کر دیا۔ المیہ یہ ہوا کہ ایم ٹی آئی کی طرح ایم سی آرڈیننس بھی قومی اسمبلی اور سینٹ کو ہائی پاس کر کے نافذ کیا گیا۔ ساتھ ہی پی ایم ڈی سی کے باضابطہ انتخاب کے ذریعے آنے والے انتظامی بورڈ کے ارکان کی جگہ نئی میڈیکل کونسل کے 9 ارکان کی نامزدگی بھی عمل آگئی۔ نئی کونسل کے نئے ارکان میں روشانے ظفر (کشف فاؤنڈیشن) محمد علی رضا (ایڈووکیٹ) طارق احمد خان (بیکر ٹلی کے پارٹنر) روبینہ حسن (آغا خان یونیورسٹی) ڈاکٹر آصف لویا (شوکت خانم میموریل ہسپتال) ڈاکٹر ارشد تقی (حمیدلطیف ہسپتال) ڈاکٹر انیس الرحمان) ڈینٹسٹ) سرجن جنرل (پاکستان آرمی) صدر (کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان) شامل ہیں۔ گویا نئی کونسل کے کل نو ارکان میں سے سات وزیراعظم کے نامزدہ کردہ ہیں۔ پاکستان کا اصل میڈیکل شعبہ یعنی سرکاری ہسپتالوں، میڈیکل یونیورسٹیوں کو سرے سے نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔ صرف پرائیویٹ میڈیکل کالجوں ہسپتالوں و نمائندگی ملی ہے۔ ہمیں وزیراعظم عمران خان سے ہمدردی ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی انقلابی سوچ پر اس انداز سے عمل کرتے کہ عوام کو اور زندگی کے مختلف شعبوںکو فائدہ ہوتا لیکن لگتا ہے کہ وہ غلط مشیروں کے گھیرے میں ہیں اور اقتدار کی ابتدا ایسے فیصلوں سے کر رہے ہیں کہ ان کے ہمدردوں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے۔