منظّم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی مقاصد کیلئے تشدد، خوف پھیلانا دہشتگردی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے پرتشدد کارروائی دہشت گردی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے تحریر کردہ 60 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف وہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے جبکہ منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں،کارباری برادری، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے دہشت گردی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ کسی منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں تاہم ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا دہشت گردی نہیں۔ ذاتی دشمنی اور عناد کے باعث جلائو گھرائو، بھتہ خوری، ذاتی عناد اور دشمنی کے باعث مذہبی منافرت بھی دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی۔ ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث پولیس، افواج پاکستان اور سرکاری ملازم کے خلاف پر تشدد واقعے میں ملوث ہونا دہشت گردی نہیں۔ ہم پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کا تعین کرے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ دہشت گردی کی تعریف کیلئے بین الااقوامی معیار کے تناظر میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی مقاصد کا حصول مدنظر رکھے۔