نقطہ ِفکر
یہ کائنات کسی حادثے کے طور پر وجود میں نہیں آئی نہ ہی اتفاقاً ایسا ہوا ہے بلکہ اس کو بنانے سنوارنے اور پھیلانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ کائنات پہ ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں تو آشکار ہو گا کہ اس لا متناہی اور بیکراں وسعتوں کی حامل کائنات کتنے سلیقے طریقے سے بنائی گئی نہ موسموں میں موسم مدغم ہوئے نہ دن میں رات ہوئی نہ ستاروں کی جگہ چاند نے لی اور نہ خار کی جگہ پھول اْگ سکے مگر ہم نے کبھی سوچا کہ اس کائنات کی تکوین و تخلیق میں ایسا کیونکر ممکن ہو سکا کہ اتنے بڑے نظامِ شمسی اور نظامِ ارض کے ستارے، سیارے، سورج،چاند،نباتات وجمادات،پانی اور ہوا قدرت کے اسیر نظر آتے ہیں جس کی بنا پہ ہوائوں کی جولانی ہو یا ندی اور آبشاروں کی روانی،دریائوں کی طغیانی ہو یا پہاڑوں کی آتش فشانی سب میں نظامِ قدرت کا ایک نظم و ضبط کارفرما نظر آتا ہے اور اگر غور کریں تو سمجھ آجائے کہ زندگی گزارنے کیلئے اصول اور نظم و ضبط کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اْس کا دماغ، اعصاب،خون کی گردش اور تنفس مقرر کردہ اصول و ضوابط کے تابع ہیں۔ اظہر من الشمس ہے کہ اگر ہم ان اصول و ضوابط سے انحراف کرینگے یا کسی نظام کے اوقات بدلنے کی کوشش کرینگے تو زندگی کا توازن بگڑ جائیگا۔اسی توازن اور اصول و ضبط کو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اسوہِ حسنہ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور جو مذہب اور نظام وہ لائے اور اللہ کی پہچان کرائی تو اس نظام کی بنیادی خصوصیت یہی اصول و ضوابط ہیں۔ اذان سے لے کر نماز کی ادائیگی تک انسانی جسم ایک طریقہ و اصول کے مطابق عمل کرتا ہے اس کا مطلب کسی بھی تخلیقی کار کردگی کے مثبت نتائج کیلئے حکمت عملی نافذ العمل کرنے کیلئے کسی بھی مسلک کی تعلیمات عام کرنے کیلئے اور طریقہ کا ر وضع کرنے کیلئے اصول اور ضابطے بنانے پڑتے ہیں۔ حکومت اور سیاست بھی انہی اصول و قوانین کے تحت ناکام یا کامیاب ہوتی ہے۔ خاص کر حکمرانِ وقت اور اعلیٰ عہدیداران کا قول و فعل اجتماعی اور انفرادی زندگی قانونی ضابطوں اور زندگی کے دیگر نظم و نسق کا آئینہ ہونی چاہیں۔مگر فکر یہ غالب آتی ہے کہ جب مکمل ضابطہ حیات اور کائنات کا نظام بہترین اصولوں پہ استوار تھا اوراستوار ہے تو پھر یہ نظام میں بگاڑ کیسا؟ جب ایک فرد کے اقوال و افعال کسی ضابطے اور اصول کی پیروی کر رہے ہونگے تو اْس کا وجود انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی افادیت آشکار کریگا۔ اصل مآخذ تو یہ ہے کہ قدرت کے بنا اْن اصول و ضوابط جن پر یہ کائنات کا نظام چل رہا ہے کے بغیر، امن و سلامتی،ترقی و ترویج کا امکان ممکن نہیں۔ اسی نظم و ضبط کی سب سے اعلیٰ ترین مثال ہماری افواجِ پاکستان ہے۔ اگر وہ قانون اور ضابطوں کی اہمیت نہ سمجھ سکیں اور اْن کے مطابق عمل نہ کر سکیں تو وہ اسلحے کی فراوانی اور عددی برتری کے باوجود دشمن کے آگے سینہ سَپر نہ ہو سکیں۔ہماری عسکری طاقت کی پرورش ہی نظم و ضبط کا شاخسانہ ہے اس سے انحراف فتح کو شکست میں بدلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ نظم و ضبط اور قوانین سے انحراف کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ جب نبی پاک نے غزوہِ اْحد کے موقعے پر مسلمان سپاہیوں کے ایک دستے کو ایک درے پہ یہ کہتے ہوئے تعینات کیا کہ "اگر تم دیکھو کہ پرندے ہم کو اْچک لے گئے ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس کسی کو بھیجوں" مگر انہوں نے اسی نظم و ضبط اور حکم آقا کی نافرمانی کی جس کی بنا پر اْنہیں نقصان اْٹھانا پڑا۔ اگر تاریخ پہ بھی نظر ڈالیں تو قومی زندگی کی کامیابی تو عبارت ہی نظم و ضبط اصول و قوانین کی تعمیل سر خم کر کے کرنے میں ہے۔ بادشاہِ وقت اور قانونی محافظ، دریائوں کا سینہ چیرنے والے اور بلندیوں کے شاہین وقت اور اْس کی تاریخ کو سامنے رکھ کر اور موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں جو بھی حکمت عملی اپناتے ہیں اْن کا اصل اْن کی بنیاد قدرت کے اْسی نظم و ضبط پہ محیط ہوتی ہے جسکے تحت یہ نظامِ کائنات توازن نہیں بگڑنے دیتا۔ جس قوم نے نظم و ضبط تباہ کر کے اپنی زندگیوں کا توازن بگاڑ دیا ہے وہ ذلت و رسوائی کی پستی میں پٹخ دی جاتی ہیں جس طرح کہ برِ صغیر کے حکمرانوں سے ہوا اور موجود دور میں بھی اسکی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ جب مسلمانوں نے ایکا کیا کہ وہ علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے بنائے گئے پلیٹ فارم سے پاکستان لے کے رہیں گے تو اْنکی زندگی ایسے نظم و ضبط کا آئینہ ہو گئی کہ پاکستان اْنکی آنکھوں میں تمکنت سے نظر آنے لگا، دنیا حیران ہو گئی بربادیاں اور ناکامیاں سرنگوں ہو گئیں مگر آج وہی ناکامیاں اور بربادیاں سر اْٹھا کر کیوں چل رہی ہیں۔ہمارے مذہب اور ہمارے آبائو اجداد کی اعجاز تربیت نے منتشر اور بے راہ روی کی شکار قوموں کو راست بازی کی طرف نہ صرف موڑا بلکہ محبت بھائی چارے کے اصول و ضوابط سمجھا کر ایک مالا کے موتی کے طور پر پرویا، اْنکی اطاعت رسول اور مذہب میں نظم و ضبط کے تحت عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ذرے صحرائوں میں تبدیل ہو گئے، قطرے مل کر دریا بن گئے اور پائوں کی ٹھوکروں پہ رہنے والا مسلمان ایک عظیم قوم بن کے اْبھرا۔ آج بھی اْسی کائنات کو توازن کی ضرورت ہے جو کہ نظم و ضبط کے بناگزیر ہے۔ ہمارے فقیہہ الذہن، صوفیائے اکرام، علمائے دین اور حکمران وقت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج اتنا بڑا نظام چلانے اور قائم کرنیوالے کی قوم و نسل زندگی کے ہر مرحلے پہ اپنے نظم و ضبط میں توازن کے بگاڑسے نہ صرف خوفزدہ ہے بلکہ تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہوئی ہے۔