مولانا فضل الرحمان جواب دیں!!!!
جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق حاصل ہے، پاکستان کے ہر شہری کو آئین پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے اور ہر دور میں حکومتوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ بھی جمہوری حکومت کی موجودگی کا احساس دلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس حد تک اس مارچ اور اس کے معصوم شرکاء کی کوشش کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن جب وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ مارچ کے اہم قائدین بشمول مولانا فضل الرحمان کے اپنے خیالات، تقاریر کو سنا اور پرکھا جائے تو حالات کچھ اور ہی ہیں۔ حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو مارچ، احتجاج کی اجازت دی، ملک میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی اخلاقی حمایت بھی کی۔ اتنا کچھ ہونے، آزادی مارچ کے آزادی سے انعقاد کے باوجود کیا مسئلہ ہے کہ مولانا اور ان کے ساتھی افواج پاکستان اور حساس اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مضبوط فوج ہی مضبوط دفاع کی حامل ہے، یہی وہ پہلی دفاعی لائن ہے جس کے پیچھے عوام کھڑی ہوتی ہے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس آزادی مارچ میں مولانا اور ان کے ساتھیوں کے قومی اداروں پر منظم حملے تو کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جب مولانا خود اعلانیہ یہ کہیں کہ وہ جاسوسی ایجنسی نہیں سازشی ایجنسی ہے، جب ان کے سرکردہ لوگ چیف آف آرمی سٹاف کو متنازعہ بنانے کی مہم شروع کریں، جب مولانا اور ان کے رفقاء کا ہدف ملکی دفاع کا ضامن ادارہ ہو تو سوچنا ضرور چاہیے کہ آزادی مارچ کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مولانا اور ان کے ساتھی براہ راست قومی اداروں پر حملے کر کے عوامی سطح پر انتشار اور نفرت کا بیج بو رہے ہیں ایسے بیانیے کا سختی کے ساتھ گلا گھونٹنے کی ضرورت ہے ماضی میں الطاف حسین کو آزادی دی گئی اور انہوں نے دنیا بھر میں قومی اداروں پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہوئے سیاسی فوائد حاصل کیے اور ملک میں نفرت اور تشدد کی سیاست کو فروغ دیا۔ الطاف حسین کو دی جانے والی آزادی کا خمیازہ قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ ملک کے سب اہم معاشی شہر کو اگر کسی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور وہاں لسانی تقسیم اور شدت پسندی کو ہوا دی ہے تو وہ الطاف حسین کی وجہ سے ہے۔ کیا ہم ایک مرتبہ پھر ویسی سیاسی جماعت اور رویے کو آزادی دینے کی طرف جا رہے ہیں، کیا ملک دوبارہ ویسی ہی نفرت اور شدت پسندی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں افواج پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اعلی عدلیہ کو ضرور ایسے بیانات کا نوٹس لینا چاہیے۔ مولانا اور ان کے ساتھی اس بیانیے سے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔
اسلام آباد سے دوری مولانا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، احتجای تحریک ان کا حق ہے لیکن انہیں اہم ریاستی اداروں کو براہ راست نشانہ بنانے، عوام میں نفرت پھیلانے اور دشمن کے ایجنڈے پر آزادانہ کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فوج کے اقدامات، فوجی شخصیات کے فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اداروں کو نشانہ بنانا بہرحال نفرت پھیلانے کا ایجنڈا ہے۔ ایسے وقت میں جب معیشت کمزور ہو، ملک اندرونی و بیرونی مسائل میں گھرا ہو، کشمیر میں کرفیو و لاک ڈاون کی سینچری مکمل ہونے کو ہو ان حالات میں مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ایسا طرز عمل ناصرف افسوسناک ہے بلکہ تشویش ناک بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سیاست میں اداروں کو متنازعہ بننے کا مقصد صرف اور صرف اپنا حصہ وصول کرنا ہے۔ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مولانا کو ابھی اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے تھا اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی کی کوشش کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے انہوں نے فاسٹ فوڈ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے انہوں نے نظام کی بقا اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے عملی طور پر مولانا فضل الرحمان کے نام نہاد آزادی مارچ کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوری انداز میں پارلیمنٹ کے اندر رہ کر حکومت پر دباؤ بڑھانے کے حق میں ہیں۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی جو کہ جمعیت علمائے اسلام کی دیرینہ ساتھی ہیں کئی مرتبہ وہ اکٹھے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اس کے باوجود جماعت اسلامی نے مولانا فضل الرحمان کے مارچ کے لیے استقبالیہ کیمپ لگانے کی خواہش کو سیاسی انداز میں انکار کیا ہے۔ ان واقعات کے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ کا دھرن تختہ ہو چکا ہے۔ انہیں چلانے والے خود اپنے اپنے راستوں پر چل رہے ہیں جب کہ مولانا اکیلے ہی مدارس کے طلبا اور اساتذہ کا قیمتی وقت ملک کی سڑکوں چوراہوں پر ضائع کر رہے ہیں۔ ان کے اس آزادی مارچ پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کا حساب کون دے گا۔ اداروں پر حملوں اور قوم کے سرمائے اور قیمتی وقت کا ضائع کرنے کا جواب مولانا فضل الرحمان کو دینا ہو گا۔