فضل الرحمن کا بیان بغاوت: حکومت، عدالت جانے کا اعلان
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ مسترد کر دیا، اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ،عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر تفصیلی گفتگوکی گئی ،اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت کے ایکسل لوڈ کی عملداری کے فیصلے کی موخری کو بھرپور سراہا گیا ہے اور بناسپتی گھی مل مالکان نے اس فیصلے کی روشنی میں بناسپتی گھی کی قیمتوں میں آئندہ کچھ دنوں میں کمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ صوبائی حکومتیں صوبوں میں اشیائے خورونوش کی عوام الناس کو کم سے کم قیمتوں میں دستیابی کو یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ذریعے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے خلاف بھرپور ایکشن لینے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پی کے میں آٹے کے موجود سٹاک کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم نے آٹے کی قیمتوں پر نظر رکھنے اور اسکی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں۔ ذرائع کے مطابق ارکان نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کا کوئی بھی غیرآئینی مطالبہ قبول نہیں کیا جائیگا، اپوزیشن کا احتجاج احتساب کا عمل روکنے کی کوشش ہے، اپوزیشن کاآئینی حق تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت ہو گی۔ ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے اجلاس کے دوران کور کمیٹی کو اپوزیشن سے رابطوں سے متعلق آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے دیں گے، آزادی مارچ کے شرکاء جہاں بیٹھے ہیں وہیں رہیں گے تو حکومت کوئی کارروائی نہیں کرے گی، اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون حرکت میں آئے گا۔کور کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ پاک فوج نے ملک میں امن کے لیے قربانیاں نہ دی ہوتیں تو ملک میں امن نہ ہوتا۔ قومی سلامتی اور دفاع کے ساتھ جڑے قومی ادارے کو اپوزیشن کا ٹارگٹ نہیں بننے دیا جائے گا، ادارے پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے ضامن ہیں، اداروں کی لازوال قربانیوں کے باعث پاکستان آگے بڑھا۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ارکان کا مزید کہناتھا کہ سیاسی اور جمہوری حکومتیں آئین سے بغاوت کرتی ہیں اور نہ عوام کے ہجوم میں بغاوت کا درس دیتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اجلاس کے دوران سیاسی بیانیہ بہترانداز میں پیش کرنے پر معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تعریف بھی کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کور کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ معاون خصوصی اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پارٹی بیانیہ کو آگے بڑھایا جائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومتی بیانیہ کو عوام تک پہنچانا معاون اطلاعات کی ذمہ داری ہے، وزیر قانون فروغ نسیم کو بھی عدالت میں پیشی سے متعلق قانونی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی کور کمیٹی نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آزادی مارچ میں وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ اور نئے انتخابات کے مطالبہ کر مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مستعفی اور نہ دوبارہ انتخابات ہوں گے اوراداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی ۔ وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان شرمناک اورقابل مذمت ہے،کورکمیٹی نے وزیراعظم کی انتھک کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور اجلاس میں معاہدے کی پاسداری پر ہر حال میں عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔ اجلاس میں کور کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے اوچھے ہتھکنڈوں میں نہیں آئیں گے، اپوزیشن جب تک چاہے دھرنا دے، بلیک میل نہیں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ استعفے کا مطالبہ احمقانہ ہے، اپوزیشن کا کوئی بھی غیر جمہوری مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتے ، اگر اپوزیشن نے بلیک میلنگ کی تو مذاکرات نہیں کریں گے۔ اجلاس میں وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی۔ جے یو آئی سمیت اگر کوئی اور مسائل ہیں تو بتائے جائیں الیکشن کے حوالے سے کوئی شکائت ہے تو متعلقہ جگہ جائیں، پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نے بھی کور کمیٹی کو جے یو آئی اور دیگر جماعتوں سے آزادی مارچ کے حوالے سے مذاکرات اور حکومتی اور تحریک انصاف کے دو ٹوک موقف کی تفصیلات بھی بتائی تھیں۔ اجلاس میں سینئر رہنما جہانگیر خان ترین ،کے پی کے کے گورنر شاہ فرمان ، وزیر اعلیٰ محمود خان ، پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر ارشد داد ، سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ ، وزیر دفاع پرویز خٹک ، وزیر تعلیم شفقت محمود ، سینئر قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان ، وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری ، وزیر مواصلات مراد سعید ، وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور ، سابق وزیر خزانہ اسد عمر ، مشیر وزیر اعظم زلفی بخاری ، مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، سینٹر شبلی فراز شریک تھے۔ جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا مولانا فضل الرحمٰن مارچ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر وزارت داخلہ میں سیکرٹری داخلہ کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد انتظامیہ سمیت تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں ، چیف کمشنر، آئی جی اسلام آباد، فوج اور رینجرز کے نمائندگان اور تمام متعلقہ اداروں کے نمانئدوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء کو دھرنے کے حوالے سے تازہ صور تحال پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا گیا اور دھرنے کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا ۔ اجلاس میں انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ جلسے کے منتظمین کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنایاجائے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مارچ کے شرکاء کو مطلع کیا جائے کہ وہ معاہدے کے مطابق جلسہ گاہ کے اندر رہیں۔ اجلاس میں اس پر اتفاق کیا گیا کہ معاہدے کے مطابق شرکاء کا ریڈزون میں داخلہ ممنوع ہے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ معاہدے اور قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کو حرکت میں لایاجائے گا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے سینئر رہنما تحریک انصاف اور ماہر قانون بابر اعوان نے ملاقات کی جس میں مولانا فضل الرحمٰن کیخلاف عدالت میں درخواست دائر کرنے سے متعلق بات چیت کی گئی۔ اس حوالے سے بابر اعوان نے کہا کہ کل تک درخواست دائر کرنے کے حوالے سے تمام اقدامات سامنے آجائیں گے۔ آزادی مارچ کے منتظمین نے معاہدہ کا انحراف نہیں بلکہ ریاست کیخلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ ایسے بیانات دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی مجمع کے ہاتھوں گرفتاری سے متعلق دیے گئے بیان کو بغاوت قرار دیتے ہوئے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے ، وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوگی، اس بارے میں کوئی سوچے بھی نہیں، ہم ابھی بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، جس کے پیچھے ان کے مقاصد ہیں، جیسے آج کل مسئلہ کشمیر بہت گھمبیر تھا لیکن وہ پیچھے چلا گیا، اس کا فائدہ تو بھارت کو پہنچ سکتا ہے، وزیر دفاع اور مذاکراتی کمیٹی کے سر براہ پرویز خٹک نے کمیٹی کے دیگر ممبران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ، اس سے قبل پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس کے بعد پرویز خٹک نے کہا کہ رہبر کمیٹی کی خواہش کے مطابق ایچ نائن میں انہیں جگہ دی گئی اور رہبر کمیٹی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی مولانا فضل الرحمٰن نے توثیق کی جبکہ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے الفاظ پر قائم ہے اور معاہدے پر پیچھے نہیں ہٹے گی، انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اکرم درانی سے رابطے میں ہیں اور مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں، اگر ملک یا کسی چیز کو نقصان پہنچا تو یہ ذمہ داری اپوزیشن پر آئے گی کیونکہ انہوں نے معاہدہ کیا ہے، عمران خان نے انہیں کھلے دل سے آنے کی اجازت دی لیکن اگر اپوزیشن والے دھونس دھمکی دیتے ہیں اور اپنی بات پر پورا نہیں اترتے تو مطلب ہے کہ یہ زبان کے کچے ہیں۔ اگر اپوزیشن نے پشاور موڑ پر طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ کیا تو ذمہ دار رہبر کمیٹی ہوگی، اگر یہ معاہدہ نہ کرتے تو پھر آزاد ہوتے لیکن اگر کچھ ہوگا تو یہ ان کے گلے پڑے گا، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو آپ لوگ سوال کرسکتے ہیں لیکن اگر معاہدہ وہ توڑتے ہیں تو آپ کو بتانا پڑے گا۔ وزیردفاع نے کہا کہ گزشتہ روز کی تقریروں میں زیادہ تنقید اداروں پر کی گئی، یہ پاکستان کے ادارے ہیں، آئی ایس پی آر نے بھی بیان دیا کہ جو جمہوری حکومت ہوگی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہونگے، اداروں نے ملک کو بچایا، شہادتیں اور قربانیاں دیں، علاقہ غیر کو صاف کروایا تو اگر یہ اداروں کے خلاف بولیں گے تو پاکستان میں کون کام کرے گا، لہٰذا انہیں ملک دشمنی نہیں کرنی چاہیے، یہ ہمارے اور ان سب کے ادارے ہیں۔ شہباز شریف کی بات کہ ادارے 10 فیصد حمایت کرتے سے متعلق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'انہیں اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے تھا کہ نواز شریف اقتدار میں کیسے آئے، جنرل جیلانی سب کو یاد ہیں'۔پرویز خٹک نے کہا کہ فوج ایک غیرجانبدار ادارہ ہے اور جب ایک ادارہ غیرجانبدار ہو تو انہیں تکلیف ہے، جس سے واضح ہے کہ یہ کسی کی پشت پناہی پر چلتے رہے، تاہم ادارے غیرجانبدار کردار ادا کر رہے ہیں، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جو ادارے ہوتے ہیں چاہے فوج ہو یا بیوروکریٹس یہ سب حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں، اس کو کوئی الگ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے وہ استعفے کا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ 30 سے 40 ہزار لوگ آکر استعفیٰ مانگنے لگ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ پھر ملک میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت نہیں چاہتے اور زور زبردستی سے حکومت کو توڑنا چاہتے ہیں جو پاکستان جیسے بڑے ملک میں کبھی نہیں ہوسکتا، یہ کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے کہ 50 ہزار لوگ آکر تختہ الٹ دیں، ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے، رہبر کمیٹی کے سیاسی لوگوں کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنی بات پر کھڑے بھی ہونا چاہیے، دوہرا معیار رکھنا نقصان پہنچاتا ہے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزشن کی جانب سے کہا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم نے بھی کہا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی لیکن ہم الیکشن کمیشن، اسمبلی اور عدالتوں میں گئے، جس کے بعد ہم سڑکوں پر آئے لیکن یہ لوگ تو کہیں بھی نہیں گئے۔ اپوزیشن نے انتخابات میں دھاندلی پر کوئی ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا، تاہم ہم ابھی بھی تیار ہیں اگر ان کے پاس کچھ ثبوت ہے تو کمیٹی کو پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان سے دوگنا ووٹ سے جیتے ہیں، ہم نے اپنے علاقوں میں لوگوں کے لیے کام کیا جبھی اس کے نتائج آئے ورنہ باتوں سے ایسے نتائج نہیں آتے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں چند عقل مند لوگ ہیں جو کبھی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔ آزادی مارچ کے شرکاء کی جانب سے آگے بڑھنے کا اعلان نقصان دہ ہوگا، ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر مجبور کیاگیا تو پھر اس پر جو ہوگا وہ سب کے سامنے ہوگا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ملک میں معیشت کا گراف بہتری کی طرف گامزن ہے تاہم ابتدائی مرحلے میں سخت نوعیت کے فیصلے لینے پڑے‘۔ پرویز خٹک نے بتایا کہ کور کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے جو کہا کہ عوام جاکر عمران خان سے استعفیٰ لیں گے، اس بیان پر ہم عدالت جارہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور یہ بغاوت ہے،کیس تیار ہو جائے گا، ان شاء اللہ کل عدالت جائیں گے، مارچ والوں کو بتا دیتا ہوں جو وہ کر رہے ہیں سب کچھ ریکارڈ میں آ رہا ہے، ہمارے لوگ سفید کپڑوں میں گھوم رہے ہیں، سب ریکارڈ ہو رہا ہے، حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں، یہ دھونس اور دھمکی دینے لگے ہیں ، اپوزیشن کو ڈر ہے حکومت نے ڈلیور کیا تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے، دنیا اس وقت پاکستان اور عمران خان کی قیادت پر اعتماد کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر عمران خان نے بہترین سٹینڈ لیا، ہمارے پاس کوئی چابی نہیں کہ ایک دم سے کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کو مخاطب کرکے سوال اٹھایا کہ وہ بتائیں کہ ’فوج نے انہیں پولیسنگ، کچہری، تعلیمی اداروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے روکا تھا؟