جسٹس فائز کیس، جوڈیشل کونسل بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کا نہیں کہہ سکتی، سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر ملک نے کہا ہے کہ ریفرنس میں جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے انکو فریق بنانا بھی لازم ہے، قانون کی عملداری اور بدنیتی پر بھی کسی کو استثنی نہیں دیا جاسکتا، وزیر اعظم,صدر مملکت اور وزیر قانون کو اس کاروائی کا حصہ بننا چاہئے۔ میں عدالت کی توجہ ایک بار پھر افتخار محمد چوہدری کیس کے فیصلے کے پیراگراف 64 اور 70 کی طرف دلایا گیا، پیرا 64 میں ریفرنس دائر ہونے سے پہلے5 اقدامات واضع کیے گئے ہیں اسی پیرا میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد کے تین پیرا گراف واضع کیے گئے ہیں،آئین کاآرٹیکل 209 آرٹیکل 211 کے اثر سے باہر ہے۔ آئین کاآرٹیکل 209 سپریم کورٹ کے جائزہ لینے کے اختیار کو ختم نہیں کرتا اس لئے سپریم کورٹ کو آرٹیکل 211 کے تحت ریفرنس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا ضرور جائزہ لینا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ افتخار چوہدری کیس میں کہاں لکھا ہے کہ کونسل ریفرنس دائر کرنے کے پہلے کے مراحل کا جائزہ نہیں لے سکتی، منیر ملک نے جواب دیا کہ کونسل ریفرنس بھیجنے میں بدنیتی کے پہلو کا جائزہ نہیں لے سکتی اورکونسل صدارتی ریفرنس کو سننے کی پابند ہے۔ جسٹس منیب اخترنے سوال کیاکہ اگر کونسل سمجھے کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے تو کیا کونسل اس پر اپنی رائے نہیں دے گی؟ ان دلائل سے آپ جوڈیشل کونسل کے اختیار کو محدود کر رہے ہیں، منیر ملک نے جواب دیا کہ دائرہ اختیار یا بد نیتی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں آیا جاسکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اس کیس میں اٹھائے گئے نکات کونسل کے سامنے بھی اٹھائے گئے ہیں,فیکٹ فائینڈنگ کے فورم کے پاس یقینی طور پر اختیارات کم ہوتے ہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ میں معروضات پیش کرونگا کہ عدالت خود اس معاملے کو دیکھے سپریم جوڈیشل کونسل کو نہ بھیجے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کونسل بدنیتی پر مس کنڈکٹ پر دائر ریفرنس خارج کر دے۔ منیر ملک نے جواب دیا کہ آئین نے جوڈیشل کونسل کو عدالت کا اختیار نہیں دیا، صدارتی ریفرنس کو سپریم جوڈیشل کونسل واپس نہیں بھیج سکتی، صدارتی ریفرنس پر کونسل نے اپنی رائے دینا ہوتی ہے,جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ کیا کونسل یہ کہہ سکتی ہے کہ ریفرنس غلط بھیجا گیا۔ آرٹیکل 209 کے تحت مناسب شواہد کی تسلی ہونے پر صدر مملکت ریفرنس کونسل کو بھیجے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جس جج کیخلاف ریفرنس ہو وہ سوالات کیسے اٹھا سکتا ہے؟جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس،سپریم کورٹ کے سینئر جج اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی ہوتے ہیں,اس لئے سپریم جوڈیشل کونسل بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کا نہیں کہہ سکتی,جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کونسل ایگزیکٹو کا حصہ نہیں ہے صدر مملکت جج کیخلاف مواد اکٹھا کر کے ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جج کونسل کی کاروائی اوپن کرنے کا کہہ سکتا ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریفرنس میں کاروائی کھلی عدالت میں ہوئی,جج کونسل کو کاروائی اوپن کرنے کی درخواست کر سکتا ہے۔ آئینی سوالات کا جواب عدالت عظمی دے سکتی ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ منیر اے ملک کا 1971 کے فل کورٹ ریفرنس کا حوالہ بلاشبہ یہ ایک سیریس ایشو ہے۔ عدالت عظمی میں معاملہ آنے سے کونسل کی ساری کاروائی منجمد ہو جائے گی، سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کیخلاف جج 184/3 کی درخواست دے سکتا ہے اورجج کونسل کی کاروائی کھلی عدالت میں کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیاکہ درخواست میں وزیر اعظم اور صدر مملکت پر براہ راست کونسا الزام ہے؟منیر اے ملک نے کہاکہ جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے انکو فریق بنانا بھی لازم ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ یہ بتائیں ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی۔ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے، صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا,کیونکہ صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کیا اور ملک صدر مملکت نے اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کر کے غیر آئینی اقدام کیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال کیاکہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کرنا ہے تو کیا سارا مواد انکی نگرانی میں اکٹھا ہونا چاہئیے۔ جسٹس منیب اخترنے کہاکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کر کے ریفرنس بھیجا ہو۔ وکیل منیر ملک کا کہنا تھا کہ وفاقی کابنیہ سے بھی ریفرنس کی منظوری نہیں لی گئی,جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کس قانون کے تحت جج کیخلاف مواد اکٹھا کیا گیا؟ کیاکسی اتھارٹی کی اجازت سے کسی کیخلاف مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔