سینٹ: آرڈنینس پیش نہ کرنے پر حکومت، اپوزیشن کی جھڑپ، حزب اختلاف کا ایوان میں دھرنا
اسلام آباد (نیوز رپورٹر) حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونیو الے آرڈیننس کو ایوان بالا میں پیش نہ کرنے پر حکومت اور اپوزیشن میں جھڑپ ہوگئی۔ اجلاس کچھ دیر جاری رہنے کے بعد آج بدھ کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی، اپوزیشن نے صدارتی آرڈیننس پیش نہ کرنے پر چیئرمین سینٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاجا دھرنا دے دیا اور گو عمران گو اور گو نیازی گو کے نعرے بھی لگائے۔ اپوزیشن نے اپنے ہی ایجنڈے سے ہٹ کر حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے 8آرڈیننس ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ حکومت نے ریکوزیشن اجلاس میں آرڈیننس پیش کرنے سے انکار کر دیا جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن سینیٹرز نے حکومت مخالف شدید نعرے بازی کی، سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر رضا ربانی نعرے لگواتے رہے، اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کو عزت دو، سول آمریت نا منظور، پی ایم ڈی سی پر شب خون نا منظور ، آرڈیننس فیکٹری بند کرو، گو عمران گو اور گو نیازی گو کے نعرے لگائے گئے۔ اپوزیشن سینیٹرز کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومتی قانونی ٹیم جنرل ضیاء کے ساتھ رہی، ان لوگوں کو صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی عادت ہے، ایسے قوانین راج کرتے ہیں جن کی پارلیمنٹ سے سکروٹنی نہ ہوئی ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن ممبران کی جانب سے صدارتی آرڈیننس رد کر دیا، اگر کل کسی اور نے ان آرڈیننسز کو عدالت میں چیلنج کر دیا تو کیا ہوگا۔ ہم ایک بار پھر پارلیمنٹ کی کارروائی کو عدالت کے سامنے گروی نہیںرکھ دیں گے، حکومت آرڈیننس اس لئے ایوان میں پیش نہیں کر رہی کہ ان کے خلاف کہیں اپوزیشن قرارداد نہ لے آئے۔ قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز اور وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ آرڈیننس مناسب وقت اور سہولت کے تحت ایوان میں پیش کریں گے، ہم ریکوزیشن اجلاس میں نہیں بلکہ معمول کے سینٹ اجلاس میں آرڈیننس پیش کریں گے۔ ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ عباسی صاحب ریکوزیشن اجلاس میں حکومتی ایجنڈا شامل نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر دیگر اپوزیشن سینیٹرز نے بھی احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ پہلے آرڈیننس ایوان میں پیش کئے جائیں۔ سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں سے کسی بھی ایوان کا اجلاس طلب ہو جائے تو حکومت آرڈیننس کے اجرا کے بعد کس پہلے سیشن میں آرڈیننس پیش کرنے کی پابند ہے، اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی متعدد رولنگ موجود ہیں۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ جنرل ضیاء کا پتہ نہیں کیوں نام لیا گیا ان کی وجہ سے مجھے دو گولیاں لگیں، اجلاس سے قبل ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا، اس میں جو فیصلے ہوئے اس پر عمل ہونا چاہیے، اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا، اپوزیشن نے جو ایجنڈا دیا پہلے اس پر عملدرآمد ہو جائے اس کے بعد ہم اپوزیشن کے ہر سوال کا جواب دیں گے، جس پر ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کیا ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد آپ آرڈیننس پیش کریں گے، جس پر اعظم سواتی نے کہا کہ ہم ریکوزیشن اجلاس میں نہیں بلکہ معمول کے سینٹ اجلاس میں آرڈیننس پیش کریں گے، سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ آرڈیننس سے متعلق بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں بات ہوئی، اعظم سواتی اس اجلاس میں موجود نہیں تھے اس لئے شاید انہیں معلوم نہیں، حکومت آرڈیننس اس لئے ایوان میں پیش نہیں کر رہی کہ ان کے خلاف کہیں اپوزیشن قرارداد نہ لے آئے۔ ایجنڈا پر کشمیر کا اہم معاملہ موجود ہے،آزادی مارچ کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پہلے ہی پس پشت چلا گیا ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ میں اپوزیشن کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے پہلے سال 14، دوسرے سال 58، تیسرے سال 19آرڈیننس جاری ہوئے اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بھی پہلے سال10، دوسرے اور تیسرے سال 12,12آرڈیننس جاری کئے گئے، اپوزیشن کے دور حکومت میں آرڈیننس حلال اور ہماری حکومت میں کیا حرام ہو گئے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں مل کر اس کا حل نکالیں، میں اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر رہا ہوں۔ بعد ازاں سینٹ اجلاس پریزائیڈنگ آفیسر سینیٹر ستارہ ایاز کی زیر صدارت شروع ہوا تو اپوزیشن ایک بار پھر آرڈیننس ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جس پر یزائیڈنگ آفیسر ستارہ ایاز نے کہا کہ اس پر بہت بات ہو چکی، اپوزیشن لیڈر ایجنڈے پر بات کا آغاز کریں مگر اپوزیشن نے کسی اور معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔