ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال کرنیکا حکم ، کام نہ کرنیوالوں پر فوجدداری ،مقدمہ ، جیل جائیں گے: ہائیکورٹ
لاہور(وقائع نگار خصوصی)لاہور ہائی کورٹ نے ینگ ڈاکٹرز کو فوری طور پر ہڑتال ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے معاملہ کے حل کیلئے دس رکنی کمیٹی قائم کردی۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے تحت ڈاکٹرز کی ہڑتال جائز نہیں۔ ہڑتال کی صورت میں ذمہ داروں کو توہین عدالت کی کارروائی میں جیل بھجوایا جائے گا۔ جسٹس جواد حسن نے سماعت کی۔ پنجاب حکومت نے ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف اقدامات کی رپورٹ پیش کردی۔ سیکرٹری صحت پنجاب نے کہا کہ یہ لوگ اب قانون کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کے وکیل نے کہا کہ سیکرٹری صحت معاملے کو ڈرامے کے انداز میں بیان نہ کریں۔ ینگ ڈاکٹرز قوم کا مستقبل ہیں ان کے مستقبل کو بھی تحفظ ملنا چاہئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون بناتے ہوئے فریقین سے مشاورت کی گئی؟ جس پر ڈاکٹروں نے کمرہ عدالت میں نو نو کے نعرے لگا دئیے۔ عدالت نے کہا کہ پہلے آگاہ کریں ہڑتال ختم کررہے ہیں یا نہیں۔ عدالت نے ڈاکٹروں کو ہڑتال ختم کرنے اور سوچ وبچار کے لئے آدھے گھنٹے کی مہلت دی۔ ینگ ڈاکٹرز کے عہدیداروں نے کمرہ عدالت میں شورشرابہ کیا۔ پولیس نے ینگ ڈاکٹرز کو شورکرنے سے منع کرکے کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔ عدالت نے درخواست پر سماعت دوبارہ شروع کی اور قرار دیا کہ ابھی آرڈیننس تو کچا ہے آپ لوگ کیوں ہڑتال پر ہیں؟ ابھی سیکرٹری صحت کو بھی سنیں گے۔ پروفیشن میں ہڑتال نہیں ہوتی۔ میں ہڑتال پر تفصیلی فیصلہ جاری کروں گا۔ عدالت نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ سیکرٹری صاحب ہڑتال کس وجہ سے ہوئی۔ سیکرٹری صحت نے بتایا کہ ڈاکٹرز نئے قانون کے خلاف ہڑتال کررہے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ یا تو آپ ایک کمیٹی بنا دیں جو ڈاکٹرز کو سنے۔ اس وقت ڈینگی سموگ سمیت دیگر صحت کے ایشو ہیں۔ سیکرٹری صحت نے بتایا کہ تین وائس چانسلرز نے ڈاکٹرز سے ملاقات کی لیکن ڈاکٹر نہیں مانے۔ ڈاکٹرز نے پورا قانون ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ عدالت میں موجود ہر شخص ہڑتال سے متاثر ہے۔ پہلے ہڑتال ختم کریں پھر بات چیت کریں۔ عدالت نے کہا کہ قانون میں ان کے پوائنٹس کو شامل کرلیں۔ پلاسٹک بیگز کیس میں عدالت نے چیف سیکرٹری کو متاثرین سے بات کرنے کا کہا تھا جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔ ابھی تو آرڈیننس آیا ہے اسے قانون بننا ہے۔ آپ وکلاء ڈاکٹرز کو سمجھائیں کہ ہسپتال خودمختار ہونے سے ان کا سٹیٹس متاثر نہیں ہوگا۔ سیکرٹری ڈاکٹرز کو ساتھ بٹھا لیں اور ان کو سمجھائیں کہ قانون میں کیا کیا ہوگا۔ وائی ڈی اے کو تحریری دینا ہوگا کہ ہڑتال ختم کررہے ہیں۔عدالت ایک کمیٹی بنا دے گی جو ڈاکٹرز کی بات سنے گی۔ہڑتال کی کسی صورت اجازت نہیں۔قانون کا ڈرافٹ عدالت کو دیں۔اب قانون کے ڈرافٹ پر بات ہوگی۔ تمام لوگ بیٹھ کر مشاورت کریں۔دس منٹ بعد دوبارہ آجائیں اور پلاسٹک بیگز والا فیصلہ پڑھ لیں۔عدالت کو نام بھی بتائیں جن کو کمیٹی میں شامل کرنا ہے۔عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ پروفیشنل ہڑتال نہیں کرسکتے۔ینگ ڈاکٹرز کے وکلاء نے عدالت سے جذباتی انداز میں بات کرنے پرمعذرت کی۔عدالت نے سیکرٹری صحت سے پوچھا ہڑتال تو اکتوبر سے چل رہی ہے پھر فریقین کے تحفظات کوسننے کیلئے اتنی تاخیر سے کمیٹی کیوں بنائی گئی۔عدالت نے ریمارکس دئیے افسوس کہ یونیفارم پہن کر ڈاکٹرز ہسپتال کے بجائے عدالت میں آگئے۔ جائیں جاکر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کریں۔ عدالت نے ینگ ڈاکٹرز کوفوری طور پرہڑتال ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ مجھے پورے صوبے میں بارہ بجے تمام ڈاکٹرز ڈیوٹی پر چاہئیں۔ ینگ ڈاکٹرز کے نمائندوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہڑتال ختم کررہے ہیں۔ کمیٹی فائنل ڈرافٹ کا مسودہ اور رپورٹ 23 نومبر کو عدالت میں جمع کرائے۔ ڈاکٹر اس دوران کسی بھی قسم کی ہڑتال میں نہیں جائیں گے۔ فوجداری مقدمہ درج ہوگا۔ ڈیوٹی اوقات میں ہرتال کرنا جرم ہے۔ کیس کی سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈاکٹرز کی ہڑتال کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔ مومن آغا کو دس رکنی کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے نئے ممبران میں عابد ساقی ایڈووکیٹ، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری، پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر علی رضا،ڈاکٹر غلام مصطفی، عبد الحمید اور صوبائی سیکرٹری قانون اور پارلیمانی امور شامل ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کی ہڑتالوں پر مستقل پابندی عائد کرنے کی استدعا کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کر دی گئی۔