کوئی بھی ہم سے ناجائز حکومت کو نہیں منوا سکتا: فضل الرحمن
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) آزادی مارچ کے پلان بی پر عمل درآمد کے لیے جمیت علمائے اسلام (ف) کی مرکزی قیادت کا اجلاس مولانا فضل الرحمن کی رہائشگاہ پر ہوا تاہم اس میں کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں صوبائی اور ضلعی قیادت شریک ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں شریک جے یو آئی (ف) کے صوبائی امراء نے مشاورت کا وقت مانگ لیا ہے۔ جے یو آئی ف کے اجلاس میں آزادی مارچ کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا، مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی غیر سنجیدگی پر بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یوآئی ف کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آج بعد ازظہر دوبارہ ہو گا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ اجلاس میں احتجاج کو ملک بھر میں پھیلانے پر مشاورت ہو گی، اگلے قدم کے لیے ساتھیوں سے تجاویز لیں گے جو رہبر کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں گی، حتمی فیصلہ رہبر کمیٹی کریگی۔ علاوہ ازیں سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن سے محمود خان اچکزئی نے ملاقات کی۔ آزادی مارچ کی آئندہ حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔ دونوں رہنمائوں نے آزادی مارچ کے پلان بی پر مشاورت کی۔ آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کسی کو پاکستان کے نظریئے، آئین اور جمہوریت سے کھیلنے نہیں دیں گے، ہم نے حکمرانوں کا غرور خاک میں ملا دیا، اسلام آباد اس لیے ہدف ہے کہ یہ دار الحکومت ہے، این آر او کو بدنام کر دیا گیا ہے، فیس سیونگ ہمیں نہیں انہیں چاہیے، ہم نے ان حکمرانوں کو غرور خاک میں ملا دیا ہے، ہم ان حکمرانوں کو تسلیم نہیں کرتے، یہ کرسی پر بیٹھے رہیں لیکن عوام انہیں حکمران نہیں مانتی، دھرنے سے ہماری جماعت کے نظریاتی اہداف کو تحفظ مل گیا، میں اور میرے کارکن ایک دوسرے سے راضی ہیں، تحریک کی کوئی حد نہیں ہوتی، منزل مقاصد کا حصول ہوتی ہے۔ آج غرور کا پہاڑ ریت کا صحرا بن گیا ہے، سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے عوام کو سبز باغ دکھائے گئے، ایک دفعہ کہہ دیا یہ حکومت ناجائز ہے اب کسی کا باپ بھی اسے ہم سے جائز نہیں منوا سکتا وقت آ گیا ہے کہ ان حکمرانوں سے حساب لیا جائے۔ اس ناجائز اور بدبودار حکومت کا خاتمہ ایمان کا تقاضا ہے۔ اسی جذبے سے یہ تحریک آگے بڑھے گی۔ ایسے لوگوں کا ملک پر مسلط ہونا عذاب الٰہی سے کم نہیں۔ دوسروں کو چور کہنا آسان ہے جب چور بھاگتا ہے تو جان بچانے کیلئے چور چور کا شوہر مچاتا ہے، اسے چھپنے نہیں دیں گے۔ جب خود دھرنا دیتے تھے تو کہتے تھے 15 ہزار آکر نعرہ لگا دیں تو استعفیٰ دیدوں گا۔ مظاہرین کے مطالبے پر لبنان کے وزیراعظم مستعفی ہوئے۔ ملک افراتفری کا شکار ہے۔ عدالت نے پوچھا ہڑتالی ڈاکٹرز کو ڈگری کون دیتا ہے۔ عدالت نے کہا پی ایم ڈی سی والوں کو بلاؤ۔ کہا وہ بھی ہڑتال پر ہیں۔ پورا ملک جمود کا شکار ہے۔ ہر ایک ہڑتال پر ہے۔ آج نانبائی بھی ہڑتال پر ہیں کہ روٹی مہنگی کر دی گئی ہے۔ جمہوریت اور اصولوں کی جنگ لڑنی ہے۔ ہم قانون آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی جنگ لڑیں گے۔ یہ لوگ قوم کی بہنوں کے سروں پر عزت کی چادر ڈالنے آئے ہیں۔ تمام پارٹیوں سے مشاورت کر رہے ہیں ہم اپنا دباؤ مزید بڑھاتے جائیں گے۔ جو فیصلے کریں گے وہ ملک میں مزید دباؤ بڑھانے کیلئے ہوں گے۔ تم سمجھتے ہو لوگ یہاں سے اٹھ جائیں گے۔ ہم میدانوں، صحراؤں میں تمہارے خلاف لڑیں گے۔ قوم ایک پیج پر ہے۔ پاکستانی جبر کی حاکمیت تسلیم نہیں کریں گے۔کہا گیا کہ ہم فاٹا کو ہر سال 100 ارب روپیہ دیں گے اور 10 سال تک مسلسل دیتے رہیں گے، لیکن آج تک ایک پیسہ نہیں دیا۔ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ اقبال کے حوالے سے 9 نومبر کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا گیا، اس طرح ملک نہیں چلا کرتا، سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ایک سال میں چینی، چاول اور آٹا کئی گنا مہنگا ہو گیا، 60 سے 70 فیصد ہماری برآمدات کا دار و مدار زراعت پر ہے لیکن حکومت کی زرعی پالیسی میں کپاس کا ذکر ہی نہیں، ہمارا اسٹیٹ بینک بھی خسارے میں جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک منظور نظر، نااہل شخصیت کی ملوں میں 40 فیصد چینی ذخیرہ کی گئی، کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا اور قربانیاں اسی لیے دی گئی تھیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں کہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ کریں، ہم نے کہا تم نے کتنی عدالتوں کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دھرنے کیے۔ دوسری طرف نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ہر پارٹی نے انتخابی دھاندلی کا مشاہدہ کیا، دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سربراہ بھی حکومتی رکن کو بنایا گیا، ایک سال ہو گیا لیکن تحقیقاتی کمیٹی کے قواعد و ضوابط بھی نہیں بنائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اس لیے ہدف ہے کہ یہ دار الحکومت ہے، یہ دھرنا نہیں آزادی مارچ ہے اور ہمارے مارچ کے پیچھے دنیاوی طاقت ہمارے کارکن ہیں، دھرنے سے ہماری جماعت کے نظریاتی اہداف کو تحفظ مل گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں اور میرے کارکن ایک دوسرے سے راضی ہیں، تحریک کی کوئی حد نہیں ہوتی، منزل مقاصد کا حصول ہوتا ہے اور کارکنوں نے کہا کہ وہ بیٹھے ہیں اور بیٹھے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول نے مارچ نومبر تک ملتوی کرنے کامشورہ دیا تھا، ہم نے کہا کہ سردیاں بڑھ جائیں گی پھر آنہیں سکیں گے۔ این آر او سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ این آر او کو بدنام کر دیا گیا ہے، اس کا مقصد ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانا ہے، دونوں بڑی پارٹیاں چارٹر کے ذریعے ملکی سیاست میں واپس آئی تھیں۔ سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ہم سے بیک ڈور سے بھی لوگ مل رہے ہیں لیکن کوئی غیر ملکی سفارتخانہ بیچ میں نہیں ہے۔کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کی ناکام سفارت کاری کی وجہ سے کشمیر پر یہ دن دیکھنا پڑا، جب تک ہم تھے حالات کنٹرول رکھے کہ بھارت ایسا اقدام نہ کر سکے، عمران خان نے کہا تھا مودی کی حکومت آئے گی تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ فیس سیونگ سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں محفوظ راستے کی ضرورت نہیں، ضرورت ان کو ہے۔ حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ استعفے سے کم نہیں تو اس کے برابر کی صورت سامنے آئے، عمران خان کا استعفی لینے کے لیے حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے۔ دھرنے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچنے سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کے دبائو سے حلیف جماعتوں کو فائدہ ملتا ہے تو خوشی ہو گی۔ سربراہ رہبر کمیٹی اکرم درانی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوٹرن لیں گے اور ہمارا مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ پلان بی آئے گا تو ان کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔ پلان بی کے تحت یہاں بھی دھرنا رہے گا اور شاہراہیں بھی بند ہوں گی ۔