• news
  • image

ہم عظیم تم حقیر

نہرو ، جو جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے رکھتے تھے( گو کہ سیاست کی ٹرینینگ کرنا ایک اور بات ہے)مگر، اپنی بیٹی کو جب کسی مغل بادشاہ کی طرح اپنے بعدکانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بنا دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسی غیر جمہوری سوچ پر کلدیپ جی صرف یہ لکھتے ہیں کہ لال بہادر شاستری کہتے تھے ؛"نہرو جی کے من میں تو بس ان کی پتری ہے" ۔۔ اور خود بڑے نرم الفاظ میں کہتے ہیں ;کہ" نہرو کی کمزوری ان کی بیٹی تھی " ۔۔بس ۔ سیرسیلی ۔ بس اتنا ہی ؟
کلدیپ جی ،اندرا گاندھی کی 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کا ذکر آتا ہے تو بس ہلکا سا چھو کر گزر جاتے ہیں ۔ 1984میں ہندوستانی فوج نے سکھوں کے گولڈن ٹمپل میں گھس کر جس طرح آزادی پسندوں کو دہشت گردی کے نام پر قتل کیا ،جس کے ردِ عمل کے طور پر بینت اور ستونت سنگھ نے اندرا گاندھی کے باڈی گارڈ ہو تے ہو ئے بھی اسے بیس یا تیس گولیوں سے بھون دیا تھا۔۔ اور پھر اس کے بدلے تین نومبر تک جس طرح دلی پو لیس آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہی جس کے نتیجے میں ۰۰۰۳ سکھ صرف دلی اور بہار میں مارے گئے اور راجیو گاندھی نے صرف یہ کہا :"بڑا شہتیر گرتا ہے تو اتنی کو زمین تو ہلتی ہے ۔۔" پنجاب کے سکھوں کے مطالبے نہ ماننا اور اس محرومی کے بدلے اگر وہ ہتھیار اٹھا لیں تو انہیں کچلنا ۔ اس بارے کلدیپ نئیر ہی خاموش نہیں ، انڈیا کا بڑے سے بڑا انسانی حقوق کا چئیمئین بھی زبان نہیں کھولتا اور یہی صورتحال جب پاکستان میں ہو۔ مشرقی بنگال ہے خالصتانیوں جیسے مکتی باہنی ہیں جو مزاحمت اور احتجاج کے نام پر بہاریوں کو یا نان بنگالیوں کو قتل اور ریپ کرتے ہوئے۔ انہیں روکنے والی فوج نئیر صاحب کے بقول oppresor، ظالم ، اور جابر ہے تو ہندوستانی فوج 1984 میںکیا تھی ؟ ا ندرا کی والی1975 ایمرجنسی کیا تھی؟ آپ نے انکے لئے وہی الفاظ استعمال کیوں نہیں کئے ؟ مرنے سے کچھ دن پہلے مکمل ہو یوالی کتاب میں بھی ایک ہندوستانی ، ہندوستان سے محبت کی عینک نہیں اتار سکتا ۔ اسی لئے میں نے کہا کتاب پڑھو ضرور ، تاکہ پاکستانیوں کو پاکستان سے محبت کا طریقہ آئے ۔ کیسے اپنے بڑے بڑے گناہوں پر پردہ اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو اچھا لا جاتا ہے ۔ ان کی بھٹو سے نفرت بھی معاف کر دوں مگر کلدیپ صاحب جیسا بندہ جب نہرو اور گاندھی یا پاٹیل کی بات کرے تو لفظوں سے بھی احترام کا شیرہ ٹپکتا نظر آئے ۔کیبنٹ پلان کا ذکر تو کیا مگر یہ لکھنے کی ہمت نہ ہو ئی کہ اسے کس نے نامنظور اور کس نے منظور کیا تھا۔ انتہائی کامیابی سے پیچھے کو چھلانگ مار کر 1937 میں جا پہنچے ، اور جناح کی اس وقت کی کہی بات کو قوٹ کر دیا ۔ گاندھی جی کا تقسیم پر رونا دھونا تو لکھا مگر یہ نہ بتایا کہ تقسیم جناح کی وجہ سے ضرور ہو تی اگر نہرو اور پٹیل کیبینٹ مشن پلان منظور کر لیتے ۔جس میں متحدہ ہندوستان کی بات تھی۔ اس کتاب میں، نہرو ، گاندھی اور پٹیل کو آزادی کے سچے سپاہی تو دکھا دیا مگر جناح کے بارے میںبات کرتے انکی اس بیماری کا ذکر تک نہ کیا ، جو انہیں لاحق تھی ، اور انہیں پتہ تھا کہ میں جی نہیں سکوں گا پھر بھی وہ مسلمانوں کے حقوق کی آئینی جنگ لڑتے رہے ۔ انکی بے غرضی پر لکھنے کو ایک لفظ نہیں تھا ؟ تاکہ انکے نام کے ساتھ لگا یہ پروپیگنڈا ماند نہ پڑ جائے کہ وہ الگ ملک کا سربراہ بننے کیلئے یہ سب جد و جہد کر رہے تھے۔ ہندو مسلم پانی کا ذکر کیا ،، مگر اس طرح جیسے یہ بھی مسلم لیگ کی اصطلاح ہو ۔۔ وہ تو اسی کے ڈسے ہو ئے تھے اسی وجہ سے تو الگ ملک مانگ رہے تھے ، جب ہندو مذہب کی تنگی کو سلطنت پر پھیلے تصور کرتے تھے تو ، انہیں اقلیتوں پر زمین تنگ نظر آتی تھی ۔ جناح کی وہ پیشن گوئیاں جو پو ری نہ ہو ئیں ،" سب مل جل کر رہیں گے ۔"، جیسی ۔۔ ان کا ذکر تو کیا مگر اس پیشن گوئی کا کیا ہواجب انہوں نے کہا تھا کہ اس ہندوستان میں مسلمان تمام عمر اپنی وفا داریاں ثابت کرتے رہیں گے۔ پھر مائونٹ بیٹن کی اس پیش گوئی کا تو ذکر کیا کہ پاکستان پچیس سال میں ختم ہو جائے گا اور بنگلہ دیش بننے کو اسکے ساتھ جوڑ بھی دیا مگر نہرو اور پاٹیل کی ان پیش گوئیوں یا بر ی نیتوں کا نہیں بتایا کہ ان کہ دیکھئے گا یہ کمزور سا پاکستان چند ماہ میں ہی ہندوستان میں پھر سے واپس آملے گا ۔۔دو قومی نظریہ اتنا بھی گیا گزرا ہوتا تو کم از کم مشرقی بنگال ہی واپس مغربی بنگال کو جا ملتا ۔۔کچھ اور بھی تاریخی حقائق مسخ کئے گئے ہیں جو ایک عام طالبعلم کو بھی نظر آجائیں ۔شملہ معاہدہ میں اندرا گاندھی کو ہیروئن اور بھٹو کو ایک خوش فہم بے وقوف دکھانے کی کوشش بھی خوب رہی ۔۔ حالانکہ شملہ معاہدہ ، بھٹو سے ہزار نفرت کرنے والے بھی اس کی سفارتی کاری کی کامیابی ہی سمجھتے ہیں ۔۔لیکن چونکہ بھٹو کلدیپ صاحب کے سامنے یہ پھڑ مار چکے تھے کہ میں پورے برصغیر کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوں ۔یہ بات کسی بھی ہندوستانی کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے ؟ ان کے لیڈر جیسے بھی ہوں ، مگر جب بات کسی پاکستانی کی ہو یا ہمارے کسی لیڈر یا ہیرو کی تو ہمیں کمتر ہی رہنا چاہیئے ۔یہ کتاب پڑھ کر مجھے اپنے ملک کے ان نام نہاد دانشوروں اور لبرلز پرشرم محسوس ہو ئی کہ کیسے یہ اپنی ہر چیز سے شرماتے اور اپنی ہر بات میں کیڑے ڈالتے ہیں اور غیروں کے جھوٹے پروپیگنڈے اور جھوٹی تعریفوں کے جال میں ایسا پھنستے ہیں کہ ہر وقت تھپڑوں سے اپنا ہی منہ لال کئے رکھتے ہیں۔ مرتے ہو ئے شخص کی جھوٹوں پر مبنی یہ کتاب ضرور پڑھیں مگر خرید کر نہیں ۔ (ختم شد)

epaper

ای پیپر-دی نیشن