تنویر نقوی اور ریشماں کی برسی
ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار تنویر نقوی کی برسی یکم نومبر اور گائیکہ ریشماں کی برسی 3 نومبر کو منائی گئی۔ تنویر نقوی سے میری دو یا تین ملاقاتیں رہیں مگر نقوی صاحب کے قریب جو شخصیات رہیں، ان احباب سے میری متعدد ملاقاتیں رہیں اور تنویر نقوی کے بارے میں کافی جانکاری حاصل ہوئی۔ تنویر نقوی اسی زبان میں گیت لکھتے تھے جو زبان فلم میں بولی جاتی۔ ان کے آنے سے فلمی مکالموں اور گیتوں میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں زبان کے ساتھ تشبیہات اور استعارات کی داغ بیل بھی ڈالی:۔؎
آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے
ان کا شعری مجموعہ ’’نے‘‘ کافی مقبول ہوا۔ ’’عذرا‘‘ میں فلم کے پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ گیت لکھا:۔؎
جانِ بہاراں، رشکِ چمن
اس گیت میں فارسی زبان کی ایسی تراکیب اکٹھی کی گئی ہیں جو اردو میں بھی رائج ہیں۔ تھیٹر کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین میں اضافے کی غرض سے بتاتا چلوں کہ پاکستان میں تھیٹر کی ابتدا تنویر نقوی کے کھیل ’’نیا دور‘‘ سے ہوئی تھی۔ پاکستان کا یہ کھیل ایک ہفتہ رٹنرسینما میں، ایک ہفتہ گوالمنڈی میں اور ایک ہفتہ چھاؤنی میں چلتا رہا۔ اس کھیل میں عیدن نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تنویر نقوی اور عیدن (نور جہاں کی بہن) ایک دوسرے سے اتنی دلچسپی لینے لگے کہ تیسرے ہفتے کے اختتام پر رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔ تنویر نقوی فضول رسم و رواج، بے جا تکلفات، اونچ نیچ اور ذات پات کے جھمیلوں سے دور بھاگتے تھے۔ سادات کے بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود خود کو ’’سید‘‘ نہیں کہلواتے تھے۔ سید بادشاہ، پیر جی یا شاہ صاحب کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ چند دن اپنے عزیزوں کے پاس مزنگ میں رہنے کے بعد نقوی صاحب، عیدن کو ساتھ لے کر بازار حکیماں چلے آئے اور کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرلی۔ ملکۂ ترنم بھی وہاں آنے جانے لگیں۔ تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی ہے۔ متحدہ ہندوستان اور پاکستان کی اردو فلموں کیلئے آپ نے سیکٹروں نغمات اور نعتیں لکھیں۔ آپکی ولادت 6 فروری 1919ء کو لاہور میں ہوئی اور یکم نومبر 1972ء کو وفات پا گئے۔ تدفین قبرستان میانی صاحب میں ہوئی۔
گائیکہ ریشماں سے میری چند ملاقاتیں رہیں۔ ریشماں نے تنویر نقوی کے لکھے ہوئے کئی گیت گائے۔ مثلاََ ان کا یہ گیت ’’وے ساڈے آسے پاسے پیندیاں پیار بھہاراں‘‘ مقبول ہوا ۔ اس گیت کو وزیر افضل نے کمپوز کیا۔ ریشماں ملک کی وہ واحدفوک سنگر تھیں جن کے گائے ہوئے گیت ان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کو بلبل صحرا کے خطاب سے نوازا گیا۔ آ پ کی آواز میں جو سوز ہے وہ کسی اور سنگر کے حصے میں نہیں آیا۔ انہوںنے زیادہ تر راجستھانی اور پنجابی گیت گائے۔ ریشماں نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میں ہر وقت اداس رہتا ہوں۔ میں نے اسے اللہ سے لو لگانے کو کہا۔ اس کے بعد یہ گیت گایا:۔؎
ہائے او رباّ نہیوں لگ دا دل میرا
ریشماں کا اصل نام پٹھانی بیگم ہے۔ وہ 1947ء کو لویا تحصیل رتن گڑھ ضلع چھورو (راجستھان) میں پیدا ہوئیں اور 1962ء کو 15 سال کی عمر میں اس کی شادی ماموں زاد خاں محمد کیساتھ ہو گئی۔ جس علاقے میں ریشماں رہنے والی تھی، وہاں لڑکی کی شادی جلد کر دی جاتی۔ ریشماں کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ریشماں بیرون ممالک عام طور پر راجستھانی لباس پہن کے جایا کرتی۔ ترکی میں ترکی زبان میں اور نیروبی میں وہاں کی زبان میں گانا گایا۔ اس نے سب سے زیادہ پنجابی زبان میں گایا۔ اس کے علاوہ اردو، پشتو اور سندھی میں بھی متعدد گیت گائے۔ ریشماں نے اپنے گھر میں تندور لگایا ہوا تھا۔ وہ خود کھانا پکاتی اور اپنے گھر میں لگے تندور میں روٹیاں پکاتی۔ ریشماں نے بھارتی فلموں کیلئے بھی گیت گائے۔ ریشماں، فقیروں، صوفیوں اور درویشوں کی درگاہوں میں اکثر حاضری دیتی۔ وہ شاہ لطیفؒ کی درگاہ پر پیدل گئی تھی۔ سرکار بری امامؒ کی درگاہ پر وہ دیگ پکوا کر تقسیم کرتی رہی۔ ریشماں شہباز قلندر کے مزار پر ہر سال جایا کرتی اور وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی۔ وہ اکثر یہ گیت گاتی:۔؎ لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن
روشن آرا بیگم کی گائیکی سے وہ بے حد متاثر تھی۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ 1964ء کو لاہور کی سڑکوں پر جب گاتی تھی۔میری آواز سن کر مجھے ایک کوٹھی میں بلایا گیا۔ دیکھا تو وہ ہمارے فلمی ہیرو اعجاز درانی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی کوٹھی ہے۔ اعجاز درانی نے میری آواز کی بے انتہا تعریف کرتے ہوئے پہلی بار مجھے مائیک دے کر کوٹھی کے لان میں معمولی ٹیپ ریکارڈر سے میرا گیت ریکارڈ کیا۔ اس وقت ملکہ ترنم نور جہاں نے کہا کہ اسکی آواز میں ایک خاص کشش ہے۔ دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ ریشماں صحرا اور جھرنوں کی آواز ہے۔
اسے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ ریشماں کو پروڈیوسر سلیم گیلانی نے ریڈیو پر متعارف کرایا۔ 3 نومبر 2013ء میں وفات پائی۔ تدفین گلشن حیدر علی، شاہدرہ لاہور میں ہوئی۔