• news

صحافیوں کا احتجاجی مارچ، فاروق، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی کی جموں منتقلی پر غور

سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیر میں 5اگست کو بھارت کی طرف سے جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد انٹرنیٹ سمیت ذرائع مواصلات کی معطلی کے100دن پورے ہونے پر سرینگر میں صحافیوں نے احتجاجی مارچ کیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے متعدد صحافی کشمیر پریس کلب سرینگر پر جمع ہوئے اوروادی کشمیر میں انٹر نیٹ سمیت مواصلاتی ذرائع کی معطلی اور دیگر پابندیوں کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ صحافیوں نے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے ان سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں لوگوں نے بھارتی قبضے کے خلاف اپنا خاموش احتجاج جاری رکھتے ہوئے اپنی دکانیں اور کاروباری مراکز بندرکھے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے تاہم کہیں کہیں نجی گاڑیاں چل رہی ہیں۔ دکانیں صرف صبح اور شام کو مختصر وقت کے لیے کھلتی ہیں۔ جن پر’’100دن سے کوئی انٹرنیٹ نہیں‘‘اور’’کشمیری صحافیوں کی تذلیل بندکرو‘‘جیسے نعرے درج تھے۔ ادھر ایک رپورٹ کے مطابق قابض انتظامیہ مقبوضہ کشمیر کے تین سابق کٹھ پتلی ورائے اعلیٰ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدرمحبوبہ مفتی کو جو اس وقت سرینگر میں نظر بندی ہیں، جموں منتقل کرنے پر غور کررہی ہے۔انٹرنیٹ سے محروم وادی کشمیر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی فورسز کے اہلکار سادہ کپڑوں میںملبوس ہوکر نجی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیںاوراپنے گھر سے باہرکسی بھی نوجوان کو گرفتارکرلیتے ہیں جیسے علاقے میں نوجوان ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے لڑکوں کے اہلخانہ نے سرینگر میں صحافیوں سے رابطہ کرکے اس صوتحال کے بارے میں بتایا۔
اسلام آباد ( سپیشل رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میں ایک سو روز سے میڈیا اور صحافیوں پر پابندیوں کے خلاف سرینگر میں صحافیوں نے احتجاجی دھرنا دے دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مختلف میڈیا گروپوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں‘ فوٹو جرنلسٹس نے میڈیا پابندیوں‘ انٹرنیٹ کی بندش اور موبائل فون پر پابندی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا ہے۔ احتجاجی دھرنا میں شریک صحافیوں نے احتجاجی بینر اٹھا رکھے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صحافیوں کی توہین بند کرو‘‘ ’’100 دن سے انٹرنیٹ بند ہے‘‘ جیسے احتجاجی نعروں والے بینرز صحافیوں نے اٹھا رکھے ہیں۔ سینئر صحافیوں نے قابض انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں ایک سو روز سے جاری کمیونیکشن بلیک آؤٹ ختم کرے اور صحافیوں کو تحریر کی آزادی واپس کرے۔

ای پیپر-دی نیشن