امریکہ، چین میں پل کا کردار اادا کر سکتے ہیں، کوئی نہیں جانتادو ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی کہاں تک پہنچ سکتی ہے: عمران
اسلام آباد ( سپیشل رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کی موجودہ نسل پرست حکومت سے بات چیت کا امکان بہت کم ہے۔ توقع ہے کہ جب چار سال بعد بھارت میں انتخابات ہوں گے تو نئی حکومت کے بننے کے بعد دونوں ملکوں میں مذاکرات کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم گزشتہ روز یہاں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام مارگلہ ڈائیلاگ کے عنوان سے منعقد ہونے والے دو روزہ سیمینار کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر بھارت انتہا پسندی کے راستے سے ہٹ جائے تو برصغیر میں امن آسکتا ہے۔ جس سے اس خطے کے کروڑوں لوگوں کے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے اپنا سکہ جمالیا ہے۔ آر ایس ایس جرمنی کی نازی پارٹی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آج ایک سو روز سے زیادہ ہوگئے ہیں مودی حکومت نے کرفیو لگا رکھا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ لیکن جب کرفیو اٹھایا جائے گا تو کشمیری بھارت مخالف جذبات لے کر نکلیں گے۔ کشمیریوں کو کرفیو اور جبر کی پابندیوں سے اپنا فرمان بردار بنانا ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے سیاسی حل کے لئے پاکستان بھرپور کوشش کررہا ہے۔ افغانستان میں امن اور سلامتی کے لئے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان میں امن سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ پاکستان نے ماضی میں ایک طاقت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیا اور اس کی خاطر جنگوں میں حصہ لیا۔ اسی کی دہائی میں ہم افغان جہاد کے دوران فرنٹ لائن سٹیٹ بنے جس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ اس کے بعد نوے کی دہائی میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا حلیف بنا جس کا پاکستان نے بے پناہ جانی ومالی نقصان اٹھایا۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ پاکستان کو آئندہ کسی دوسرے کی جنگ کا شراکت دار نہیں بننا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی اور سٹرٹیجک پوزیشن بہت سود مند ہے۔ پاکستان کو اب بڑی طاقتوں کی کشمکش کا حصہ بننے کی بجائے بڑی طاقتوں میں پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات ہیں وہ ان دو بڑی طاقتوں میں پُل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں سے بہترین تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ماحول میںامن کی جاسکے۔ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ دونوں ملکوں کے پاکستان کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان سنٹرل ایشیا کے ملکوں سے بھی اچھے مراسم چاہتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت ہی مثالی ہیں۔ چین نے پاکستان کو زراعت میںنئی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ جس سے ہماری زرعی پیداوار دوگنا ہو جائے گی۔ گوادر پورٹ کے بعد پاکستان کی خطے کے ملکوں سے تجارت میں اضافہ ہوگا۔ چین اور پاکستان میں سی پیک کے ذریعہ ترقی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو پرامن ملک بنانے اور اسے دنیا کے سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش بنانے پر کام ہورہا ہے۔ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے سیاحوں کے ویزے میںنرمی لائی جارہی ہے ہمارا شمالی علاقہ دنیا کے سیاحوں کے لئے ایک جنت ہے۔ ہم مذہبی سیاحت سے بہت بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ امن جنوبی ایشیا کے لیے بہت ضروری ہے، دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کہاں جا سکتی ہے کسی کو علم نہیں۔دنیا مداخلت کرے‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی، پابندیاں اٹھیں تو ایران خطے کی اہم اقتصادی طاقت بن کر ابھر سکتا ہے، ایران کے اہم اقتصادی طاقت بننے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان سے بابر اعوان نے بھی ملاقات کی۔