ہمدردی اور اصول!!!
کافی دنوں سے ہم میاں نواز شریف کی صحت اور ان کے علاج کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ اس دوران سب سے اہم پہلو انسانی ہمدردی رہا ہے اور اسی حوالے سے زیادہ بات چیت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میڈیا میں بھی سب سے زیادہ بات انسانی ہمدردی کو بنیاد بنا پر کی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ہونے والی گفتگو بھی اسی پہلو کے گرد گھومتی ہے۔ یقیناً انکی تیزی سے بگڑتی صحت کے پیش نظر انسانی ہمدردی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے بیرون ملک جبکہ صاحبزادی پر بھی مختلف کیسز ہیں۔ ان کے بھتیجے حمزہ شہباز سمیت خاندان کے دیگر افراد مختلف مقدمات قائم ہیں۔ میاں نواز شریف بھی عدالت سے سزا یافتہ ہیں وہ کوئی عام شخص نہیں۔ عدالت نے انہیں سزا سنائی ہے اور کسی بھی سزا یافتہ شخص کے ساتھ کوئی بھی ہمدردی کرتے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ میاں نواز شریف کے علاج کے معاملے میں ہم نے انہی صفحات پر وزیراعظم عمران خان کے نرم رویے کی تعریف بھی کی اور چودھری برادران کے مثبت کردار کی تعریف بھی کی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز میں اعلی سطح کے رابطوں کی بحالی میں بہت موثر کردار ادا کیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے تو گذشتہ روز بھی اس واضح موقف اپنایا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی سیاسی بصیرت پر کسی کو شک نہیں ہے اور ایک سلجھے ہوئے وضع دار سیاست دان کی حیثیت سے انہوں نے بہت نمایاں کردار نبھایا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی وجہ سے ہی دیگر سیاسی شخصیات کو ہمت ملی اور وہ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثالثی اور درمیانی راستے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔
اس سارے عمل میں دونوں سیاسی جماعتوں میں بہت سے لوگ آگے بڑھ بڑھ کر بیانات دے کر ماحول کو کشیدہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ہر معاملے میں سطحی سیاست اور ڈیل یا ڈھیل یا مفروضوں یا انتہائی سخت موقف اختیار کرنے والوں نے اور تو کچھ نہیں کیا البتہ عوامی سطح پر نفرت میں ضرور اضافہ کیا ہے۔ کیا ان بیانات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے یا یہ بیانات جاری کرنے والے مستقبل میں جب کوئی اور شخص اس صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو اتنا سخت موقف اختیار کر سکیں گے اس حوالے سے اکثریت کا ماضی دیکھنا انتہائی اہم ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر عمل کرتے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے، کیا انسانی ہمدردی کا فارمولہ صرف من پسند یا سیاسی ضرورت کے مطابق استعمال ہو گا، کیا انسانی ہمدردی کے تحت تمام پاکستانیوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جائے گا، کیا جیلوں میں بند دیگر افراد کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
میاں نواز شریف کے کیس میں ایک طرف انسانی ہمدردی ہے تو دوسری طرف اصول ہیں۔ آج نواز شریف جاتے ہیں تو کل کلاں کوئی اور جائے گا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلے گا، مجرم عدالتوں کا رخ کریں گے اور اس مثال پر ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کیس میں سب سے اہم فیصلہ تو وزیراعظم عمران خان کا ہے چونکہ وہ ایک لمبے عرصے تک این آر او سے انکار کرتے رہے ہیں اور ان کی جماعت کا اصولی موقف ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ یہی انکا انتخابی نعرہ بھی ہے اور یہی چیز عوام میں مقبول ہوئی اب اگر وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا کر لیا ہے۔ ایک عرصے تک عوام کو کرپشن کے خلاف جہاد کا سبق دینے والے وزیر اعظم کیسے اپنے ووٹرز کو قائل کریں گے انہوں نے ایک مجرم کے لیے طویل جدوجہد پر سمجھوتا کر لیا ہے۔ اس فیصلے کا انہیں سیاسی طور پر نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہمیشہ صرف سیاست دان ہی کیوں قابو میں آتے ہیں۔کیوں ان کے ساتھ اتنی سختی برتی جاتی ہے اگر آج میاں نواز شریف باہر نہیں جاتے یا انہیں بھیجنے سے انکار کر دیا جاتا ہے تو پھر یاد رکھیں کہ عوام مطالبہ کریں گے کہ سیاست دانوں کے ساتھ جج، بیوروکریٹ، فوج سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے خلاف اگر کوئی کیس بنتا ہے تو انہیں بھی میاں نواز شریف کی طرح خواری کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ کیا حکمران میاں نواز شریف کو مثال بناتے ہوئے مستقبل کے لیے خود کو تیار کر لیں اور جس پر بھی ایسے کیسز بنیں ان کی وردی اور زبان کو دیکھے بغیر فیصلے کرنا ہوں گے۔
یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ ہر دوسرے دور میں سیاست دانوں کو گھسیٹا جاتا ہے کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سیاستدان متحد ہو کر ملکی ترقی کے تمام اہم فیصلے اتفاق رائے سے آگے بڑھیں۔ انسانی ہمدردی کو بنیاد بنانا ہے تو پھر سب انسانوں کو بنیادی حقوق فراہم کریں اور اگر اصولوں پر قائم رہنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تو پھر یہ بھی طے کر لیں کہ میاں نواز شریف کے بعد کوئی پھنستا ہے تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک جو میاں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ملک میں طبقاتی تقسیم ختم کرنے اور دو نہیں ایک پاکستان کو طاقت پہنچانے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور پھر ان فیصلوں کا پہرہ بھی دینا پڑے گا۔ ہر دور میں سیاست دانوں کو لعن طعن کرنا مسائل کا حل نہیں مسائل کا حل یکساں سلوک، فوری انصاف میں ہے۔ جب تک ان بنیادی چیزوں پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک حالات میں بہتری ممکن نہیں ہے۔
میاں نواز شریف سے ہمدردی ضرور کریں لیکن ہمدردی جتاتے ہوئے ملک کے لاکھوں کروڑوں بے بسوں کو بھی انسانی ہمدردی کی ضرورت ہے ان تک کون پہنچے گا؟؟؟