• news
  • image

آصف زرداری زیادہ بیمار ہیں، انکا خیال کریں!!!!

میاں نواز شریف جا رہے ہیں۔ تو آصف علی زرداری کا کیا قصور ہے ان کی ہمشیرہ کا کیا قصور ہے۔ آصف علی زرداری کی صحت زیادہ خراب ہے۔ انہیں بہتر علاج کی زیادہ ضرورت ہے۔ سابق صدر جب قید میں نہیں تھے اس وقت بھی ان کی صحت مثالی نہیں تھی۔ انہیں میاں نواز شریف کی نسبت زیادہ بیماریاں لاحق ہیں۔ سابق صدر کی زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ جب میاں نواز شریف کو رعایت دی جا سکتی ہے تو آصف علی زرداری پر سختی کیوں ہے۔ انہیں بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ مریم نواز کی طرح فریال تالپور کا بھی خیال رکھا جائے۔ جب مثال قائم ہو چکی ہے، جب ہم مصلحتوں کا شکار ہو چکے ہیں، جب ہم اصول بدل لیے ہیں تو پھر آصف علی زرداری کو بھی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔ انکی زندگی بھی کسی سے کم قیمتی نہیں ہے۔ وہ میاں نواز شریف سے زیادہ سیاسی شخص ہیں۔ نظام کو چلانے اور سیاسی روایات کو آگے بڑھانے میں آصف زرداری زیادہ بہتر سیاست دان ہیں۔ ان کی سوچ اور اقدامات سے نظام کو زیادہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے، گفتگو اور سیاسی رواداری میں آصف علی زرداری میاں نواز شریف سے زیادہ بہتر ہیں۔ امام صحافت مجید نظامی مرحوم نے انہیں مرد حر کا خطاب یونہی نہیں دیا تھا۔ اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ اب حکومت کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں کا دائرہ کار وسیع کرنا پڑے گا اگر سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ بیرون ملک جانا چاہتی ہیں تو ان کے لیے بھی راستہ نکالنے پر زور دینا ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ حکومت خود بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرے۔ عوام کو الجھانے، میڈیا پر ایک ہی خبر کو بار بار چلنے کا موقع دینے سے بہتر ہے کہ مل بیٹھ کر مفاہمت سے بات کو آگے بڑھائے۔ یہ نرمی صرف میاں نواز شریف یا شریف خاندان کے لیے ہی کیوں ہے۔ آصف زرداری کا خیال رکھا جائے انہوں نے بھی مشکل وقت میں "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا تھا پھر اسی جمہوریت کو انہوں نے اپنے اختیارات منتقل کیے ہیں جو میاں نواز شریف کبھی نہ کرتے۔ فریال تالپور بھی مریم نواز کی طرح خاتون ہیں۔ آصف علی زرداری بھی میاں نواز شریف کی طرح بیمار بلکہ ان سے زیادہ بیمار ہیں۔ اس معاملے میں کسی قسم کی تقسیم یا امتیازی سلوک روا رکھا گیا تو تحریک انصاف کی حکومت کو ناصرف نقصان ہو گا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کارڈ استعمال کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے بعد ان کے پاس کوئی بھی سیاسی کارڈ استعمال کرنے کی ٹھوس دلیل ہو گی۔ ان حالات میں حکومت کے آپشنز کم ہوتے چلے جائیں گے۔
میاں نواز شریف جا رہے ہیں پہلے مولانا فضل الرحمان گئے اور اب میاں نواز شریف جا رہے ہیں۔ جب حکومت یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ اسے کیا کرنا ہے تو پھر ایک ایسا کھیل شروع ہوتا ہے جس میں ملک اور عوام کا وقت،پیسہ اور توانائیاں صرف ہوتی رہتی ہیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں حکومت نے اگر یو ٹرن لینا ہی تھا تو اتنے دن تک سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی۔ کیا پاکستان ایسی سیاست اور کھیل کو متحمل ہو سکتا ہے، کیا دکھوں ماری عوام کے ساتھ ظلم و ستم کی کوئی کسر باقی بچی ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے عوامی جذبات، ریاستی وسائل اور ملکی معیشت سے کھیلتے رہیں۔ حکومت نے سرنڈر کرنا ہی تھا تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ سیاسی رواداری کو فروغ دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان ایک قدم آگے بڑھاتے اور دونوں سیاسی جماعتیں اپنی سطح پر رہتے ہوئے اس مسئلے پر گفتگو کرتیں، عدالت کو درمیان میں لانے کے بجائے خود بات چیت کرتے اور یہ مسئلہ عدالت سے باہر حل کرتے لیکن افسوس ہے کہ برسوں سیاسی عمل میں رہنے مختلف ادوار دیکھنے اور مختلف حالات سے گذرنے کے باوجود آج تک ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنی سطح پر رہتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کی عادت نہیں اپنائی اور نہ ہی یہ خوبی ہمارے سیاستدانوں میں ہے کہ وہ عوام کو سچ بتائیں۔ سیاست دان ذمہ داری لینے کے بجائے اہم مسائل میں کسی دوسرے کا کندھا استعمال کرنے کے آپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے کیس میں بھی یہی ہوا ہے۔ حکومت نے اس کام میں تاخیر کیوں کی اور میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کو کیوں لٹکایا جاتا رہا اس سارے عمل سے کیا جمہوریت مضبوط ہوئی ہے، کیا نظام کو طاقت ملی ہے، کیا قرضوں کا بوجھ کم ہوا ہے، کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے، کیا عوام کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو حکومت نے میاں نواز شریف کی لندن روانگی کو کیوں انا کا مسئلہ بنائے رکھا۔ یہ سارا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہو سکتا تھا۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کوئی شخص ریاست کے مفاد سے بڑا نہیں ہے، کسی کی عزت ریاست سے زیادہ نہیں ہے، کسی کی انا ریاست کے مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ہے۔
کئی روز تک سارا دن ٹیلی وژن چینلز پر صرف ایک ہی خبر تھی، اخبارات کے فرنٹ پیج بھرے ہوتے تھے کہ میاں صاحب آ رہے ہیں، میاں صاحب جا رہے ہیں، میاں صاحب ہسپتال میں جاگ رہے ہیں، میاں صاحب آرام کر رہے ہیں، میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس کم ہو گئے ہیں، زیادہ ہو گئے، انہوں نے بیرون ملک جانے سے انکار کر دیا ہے۔ میاں صاحب کو منایا جا رہا ہے۔ میڈیا یرغمال بنا رہا، کیا حکومت نے سارا کھیل اس لیے کھیلا کہ میاں نواز شریف کی روانگی کی ذمہ داری اپنے سر سے اتار کر کسی اور کے سر ڈال دی جائے۔ اس معاملے میں عوام کو الجھایا گیا ہے۔ آپ جو مرضی کر لیں تاریخ میں کبھی اسے اصولوں کی سیاست نہیں کہا جائے گا۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ حوالہ دیا جائے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور سے انحراف کیا اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر عوام سے کیے گئے وعدے کو توڑ ڈالا۔ یہ لکھا جائے گا سیاست دان جیت گئے، اصول اور ضابطے ہار گئے، یہ لکھا جائے گا کہ مصلحت جیت گئی اور وعدہ ہار گیا، یہ لکھا جائے گا کہ نظام ہار گیا اور اسے چلانے والے بازیگر جیت گئے۔
ان حالات میں کون عوام کے ساتھ کھڑا ہو گا، کون ہے جو عام آدمی کو مہنگائی کے طوفان سے بچائے گا، کون ہے جو عوام کو اشیاء خوردونوش کی سستے داموں فراہمی کے ایجنڈے کے لیے کام کرے گا، کون ہے جو سستی ادویات کی فراہمی کے لیے تحریک چلائے گا۔ جہاں سب کے اپنے اپنے مفادات ہوں اور سب کو وہی عزیز ہوں وہاں عوام کے لیے سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ نہ پہلے ایسا تھا نہ اب ایسا ہے نہ آئندہ ایسا ہو گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن