• news
  • image

محمود علی … متحدہ پاکستان کی یادگار

قائداعظم محمد علی جناحؒ کے تمام ساتھی پاکستان سے محبت اور وفا کی مضبوط علامت تھے۔ ان کا فکر و عمل آج کے پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے لئے سرچشمۂ فیض اور مشعل راہ ہے۔ محمود علی کا شمار بھی جدوجہد آزادی کے ایسے قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے اور تعمیر پاکستان کے لئے بھی خود کو وقف کئے رکھا۔ وہ سابقہ مشرقی پاکستان کی ایک شاندار یادگار تھے۔ وہ قرارداد لاہور کے مطابق وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی تکمیل کے متمنی تھے۔
انہوں نے مشرقی پاکستان کی جبراً علیحدگی کو کبھی قبول نہ کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہاں کے عوام سے کسی نے کبھی یہ نہ پوچھا تھا کہ آیا وہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ وہ پاکستان کے دونوں بازوئوں کے از سر نو اتحاد کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے 1985ء میں ’’تحریکِ تکمیلِ پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی اور اسے اپنے خونِ جگر سے پروان چڑھایا۔
وہ اوّل تا آخر سچے اور کھرے پاکستانی تھے اور پاکستان کے بنیادی مفادات کے خلاف کوئی چھوٹی سی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ نظریۂ پاکستان ان کے رگ و پے میں خون کی مانند رواں دواں تھا۔ جب مشرقی پاکستان کا بحران عروج پر تھا تو حکومت پاکستان نے جون 1971ء میں انہیں متعدد یورپی اور افریقی ممالک کے دورے پر روانہ کیا تا کہ بھارت کے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کا سدباب کیاجا سکے کہ مغربی پاکستان کی سول اور عسکری اشرافیہ کی رعونت اور استحصال کے باعث مشرقی پاکستان کے باشندے اپنی الگ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ محمود علی نے ان ممالک کے حکمرانوں کو مشرقی پاکستان کے متعلق حقائق سے آگاہ کیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 26 ویں اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ ان کی مساعیٔ جمیلہ کی بدولت جنرل اسمبلی کے 105 رکن ملکوں نے دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو ایک جارح ملک قرار دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سانحہ ہونے کے علاوہ دونوں حصوں کے درمیان بداعتمادیوں کا نوحہ بھی تھا۔ محمود علی چاہتے تو بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں واپس جا سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی بنگلہ دیش جانا گوار نہ کیا حالانکہ وہاں ان کی آبائی زمینیں‘ چائے کے باغات اور دیگر جدّی پشتی جائیدادیں تھیں۔ ان کے پاسپورٹ پر دنیا کے بہت سے ممالک کے ویزے لگے ہوئے تھے لیکن اگر کسی ملک کا ویزہ نہیں تھا تو وہ بنگلہ دیش تھا۔ ان کے اس ایثار اور قربانی کا اعتراف حکومت پاکستان نے یوں کیا کہ انہیں تاحیات وفاقی وزیر کا منصب عطا کر دیا۔ پاکستانی عوام نے بھی ان کی حب الوطنی کی قدر کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا اور ان کی پیروی پر فخر کیا۔
17 نومبر 2006ء کو لاہور کے ایک نجی سکول میں منعقدہ تقریب میں خطاب کے دوران انہیں دل کا جان لیوا دورہ پڑا۔ ان کے خطاب کے آخری الفاظ تھے: ’’کشمیر پر ہم کوئی سمجھوتہ نہ کریں گے۔‘‘ وطن عزیز کے اس عظیم المرتبت بطل جلیل کی 13 ویں برسی کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوان کارکنان تحریکِ پاکستان لاہور میں ایک پروقار خصوصی نشست منعقد کی جس میں معروف سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع‘ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید‘ مسلم لیگی رہنما رانا محمد ارشداور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر کاشف ادیب جاودانی نے ان کی ملی و قومی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری حافظ عثمان احمد نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔ تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدرِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محمد رفیق تارڑ نے نشست کے شرکاء کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ محمود علی کے لئے پاکستان کا تقدس اور استحکام ہی سب کچھ تھا۔ پاکستان کے دونوں بازوئوں کو ازسر نو متحد کرنا ان کا خواب تھا جسے تعبیر دینے کے لئے انہوں نے خود کو وقف کیا ہوا تھا۔ ان کے نقشِ قدم پر چل کر ہم پاکستان کی تکمیل کا مقدس مشن پورا کر سکتے ہیں۔ شاہد رشید کا کہنا تھا کہ محمود علی ایک عظیم محب وطن سیاسی رہنما تھے۔ وہ دو قومی نظریہ کے بہت بڑے علم بردار تھے اور پاکستان کے دو لخت ہو جانے کے باوجود اس نظریے پر مضبوطی سے قائم رہے۔ انہوں نے سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرانے کے لئے تاریخ ساز کردار ادا کیا جس کی بدولت 8 جولائی 1947ء کو منعقد ہونے والے فیصلہ کن ریفرنڈم میں وہاں کے عوام نے بھاری اکثریت سے پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیے۔ انہوں نے بتایا کہ محمود علی نے حق اور انصاف کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں بھی بڑی خندہ پیشانی سے براشت کیں مگر یہ آزمائشیں ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدانہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام محمود علی کے صد سالہ یومِ ولادت کے موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد جاری ہے جن میں ان کی تصانیف کی از سر نو اشاعت بھی شامل ہے تا کہ عوام الناس بالخصوص نسل نو کو ان کی حیات و خدمات سے روشناس کرایا جا سکے۔ نشست کے اختتام پر محمود علی کے بلندیٔ درجات کے لئے دعا کی گئی۔
٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن