وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے خلاف ’’طبل جنگ‘‘ بجا دیا
اسلام آباد ( محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران اپوزیشن کے خلاف ’’طبل جنگ ‘‘ بجا دیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے حال ہی میں ہونے والے کچھ فیصلوں کو انہوں نے ’’خوش دلی‘‘ سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ دوبارہ اسی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ ان کی اپوزیشن کے بارے میں خاصی جارحانہ تقریر تھی۔ ان کے لب و لہجہ سے ’’ ناراضی‘‘ نمایاں نظر آتی تھی۔ یہی وجہ ہے وہ تین بڑے سیاسی حریفوں پر برستے رہے اور ان کا نام لے کر آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ میاں نواز شریف کی انڈیمنٹی بانڈز جمع کرائے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر نالاں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور کے اس دعوے کہ لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی جیت ہوئی ہے لیکن وزیر اعظم نے بین السطور موجودہ اور آئندہ چیف جسٹس کی توجہ عدالتی امور کی طرف مبذول کرائی ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں شکست کو قبول نہیں کیا اور اپنے ’’بیانیہ‘‘ پر قائم ہیں۔ وزیر اعظم کی تقریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں دبائو کے ماحول کا سامنا ہے اور اس صورت حال میں اپنی سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے جنوری 2020ء میں ’’سیاسی افق‘‘ میں تبدیلی کے’’ اشارے‘‘ اور بلاول بھٹو زرداری کے جلد ہمارے وزیر اعظم ہونے کے دعوے پر وزیر اعظم عمران خان کا شدید رد عمل فطری امر ہے۔ اگرچہ انہوں نے ’’ہار جیت‘‘ کا ذکر کیا ہے لیکن انہوں کہا ہے کہ ’’ اللہ نے مجھے مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا ہوا ہے۔ جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے یہ لوگ وزیر بن گئے۔ شہباز شریف منڈیلا کی شکل بناکر کھڑے ہوگئے، کسی ایک کو بھی معاف نہیں کروں گا، چاہے سارے اکٹھے ہوجائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے میں کہا کہ مجھے کہا جاتاہے کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں گا ، 800 سے زائد قیدی پچھلے دور میں جیلوں میں مرگئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ مولانا فضل الرحمن کے دھرنا ختم کر کے واپس جانے، میاں نواز شریف کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے اور بلاول بھٹو زرداری کے مولانا فضل الرحمن کے پلان بی سے دور رہنے سے سیاسی ماحول میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کا امکان نظر آتا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ خطاب سے جہاں ’’زخم خوردگی‘‘ آتی ہے وہ وہاں اپنے سیاسی مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتے ہیں وزیر اعظم’’ بے بسی ‘‘ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ وہ اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر اقتدار قائم رکھنے کی بجائے عوام کی عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار عمران خان کے خطاب سے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ آنے والے دنوں میں عمران خان چونکا دینے والے فیصلے کر سکتے ہیں۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن انہوں نے دوبارہ جے یو آئی (ف) کو ایک ماہ دھرنا دینے کا چیلنج دے دیا ہے اور جے یو آئی ف کے دھرنے کو اسلام آباد میں سرکس قرار دیا۔ دھرنے سے ہماری کابینہ کے کچھ لوگ گھبرا گئے تھے کیونکہ وہ کمزور دل رکھتے ہیں لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ تسلی رکھیں کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے اپنے آپ کو دھرنا سپیشلسٹ قرار دیا۔ وزیراعظم پر جہاں اپوزیشن کی طرف سے دبائو بڑھ گیا ہے وہاں ان کی اتحادی جماعتوں نے بھی حیلے بہانوں سے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم عمران خان کی فہم و فراست کا امتحان ہو گا وہ اس صورت حال سے کس طرح نکلتے ہیں۔