روڈسیفٹی
مکرمی! دنیا میں 16 نومبر ایسے لوگوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو روڈ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں کی تعداد 51 فیصد ہے جبکہ ہمارے جیسے غریب ممالک میں اس کا تناسب 3 گنا زیادہ ہے۔ یعنی روزانہ 6 ہزار سے زائد لوث حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں زیادہ تعداد پیدل چلنے والے‘ رکشہ اور موٹرسائیکل سواروں کی ہے۔ابھی کچھ ماہ پہلے میرے استاد اور بہت اچھے دوست ایچ ایم تقی کے بیٹے محمد علی کی موت موٹرسائیکل ایکسیڈنٹ میں ہوئی۔ ان کی وفات پر دوست و احباب غمزدو تو تھے ہی مگر ایچ تقی صاحب جو بہت صبر اور ہمت والے انسان تھے‘ انہیں پہلی بار ٹوٹے اور پریشان دیکھا۔ وہ مسلسل کہے جا رہے تھے کہ میرے بیٹے کی قاتل یہ ریاست ہے۔ اگر ریاست نے اچھے روڈ اور سہولتیں عوام کو دی ہوتیں تو شاید آج میرا بیٹا اس روڈ ایکسیڈنٹ میں نہ مرتا۔ خیر وقت جب انسان کا ختم ہو جائے تو بہانہ تو کوئی بنتا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے زیادہ تر غریب ہی ان مشکلات سے کیوں گزرتا ہے جو پیدل یا موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہیں اور سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ وہی ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں حادثے کی ایک بڑی وجہ غیرقانونی رکشہ اور ان کے وہ ڈرائیور جو پہلے ریڑھی بان تھے‘ اب اس وقت و رکشہ چلا رہے ہیں جنہیں ٹریفک قانون کا کچھ علم نہیں۔ یہ ان ٹرینڈ ڈرائیور کئی لوگوں کی جان لے چکے ہیں۔ یا تو ان غیرقانونی رکشوں کو بند کیا جائے یا پھر ان کی تربیت کی جائے تاکہ ہم ان حادثوں سے بچ سکیں۔(ندیم اختر میو۔ گیلے وال)