آتی رُت مجھے روئے گی
اشکوں کے آنگن میں، محبتوں کی دو شیزائیں فریاد کی پنگھٹ پہ اپنی گاگر بھرتی رہتی ہیں، آنسوئوں کے موتی جو زمین پہ گر جائیں وہاں پہ آرزوئوں کا ایک اداس نخلستان بننے لگتاہے، وہیں پہ ہم ان لمحوں کو کشید کرتے ہیں جو بچھڑے ساتھیوں کے ساتھ گزارے تھے اور وہیں پر ایک باڑ بنالیتے ہیں اوروہیںکہیں بیٹھ جاتے ہیں، یارانِ چمن کو اسی جگہ جمع کئے۔ جدا ہونے والوں کی یاد میں اشکوں کے دیئے جلاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک یاد اردو افسانے کا درخشاں ستارہ محمد حامد سراج صاحب تھے اور ہمیشہ رہیںگے۔ اک شخص جو’’ میا ‘‘ جیسا تھا اک شخص جو’’حیا‘‘ جیسا تھا اک شخص جو یارانِ چمن کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہوا اک کہانی لکھا کرتا تھا۔ اس کی باتیں بھی منظوم ہوتیں، کبھی توقف سے بات کرتا اور کبھی بل کھاتی سوچوں کی ندی سے عمیق خیال کا موتی دوستوں کے دامن میں رکھ دیتا،دوست کہتے حامد سراج آپ تو ادب کا خزانہ ہیں ہمیں تو آپ سے موتیوں کی مالا چاہیے تو وہ ہنس دیتے اورمیٹھی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے حاضر جناب!
حامد سراج محبت کی بہتی ندیا تھے، میرا ان سے برسوں کا تعلق تھا ماں کے اوپر لکھی میا نامی کتاب سے ان کا تعارف ہوا چولہے کی آگ، جھاڑو کی چاپ اور بستر کی سلوٹ میں اک ممتا ایک صدی کو بیان کرنا ان کاہی کمال تھا، ایک مرتبہ بات ہوئی تو کہنے لگے رابعہ موبائل آج کے دور میں بہت ضروری ہے مگر اس نے ہماری بہت ساری ریت روایت اور تہذیب کو مار ڈالا ہے، میں نے کہا سراج صاحب چلیں ایک روایت دوبارہ زندہ کردیں، آپ مجھے خط لکھیں اورپھرکچھ دنوں کے بعد ان کا صریر نامہ موصول ہوا۔ میں یقیناً ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جس سے درویش صفت حامد سراج کے گھریلو مراسم تھے، وہ جب بھی لاہور آتے مجھے اعزاز بخشتے کہ میں ان کے یارانِ چمن کو اکٹھا کروں، ان کی بیگم شگفتہ چلتی پھرتی ایک مسکان ہیں جو ان کے چہرے کی بشاشت کا سبب تھیں، کئی سال پہلے حامد سراج صاحب کو ان کے بیٹے اسامہ نے اپنا گردہ Donateکیا تو انتہائی تکلیف کے باوجود کہا ابھی مجھے جینے کیلئے اللہ نے بہت صحت عطا کررکھی ہے بڑا کرم ہے مالک کا، جسمانی تکلیف نے روحانی سفر میں کبھی خلل نہیں آنے دیا تھا صبر اور شکر کا پیکر تھے۔ سادہ لوح مگر اخلاقیات کے پیروکار حامد سراج صاحب یہ نہیں جانتے تھے ان کے یارانِ چمن ان کے جانے کے بعد کتنے غمزدہ ہوجائیں گے۔ قندیل آنکھیں، چمکتی پیشانی اور باریش چہرہ کون اس محبت اور خلوص کے پیکر کو بھول سکتاہے۔ کچھ عرصہ پہلے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے تو پہلے سے زیادہ ہشاش بشاش رہنے لگے،’’کیمو‘‘ سے ریش مبارک ایک طرف سے ہلکی ہونے لگی تو میرے پوچھنے پہ کہاکہ علاج کے سبب اگر ریش کم ہو تو ہو میں ڈاکٹرزکوکبھی قینچی نہیں لگانے دوںگا۔
حامد سراج آج خانقاہ ِ سراجیہ کی مسجد کا منبر اداس ہے وہاں پہ آنے والے کبوتر آپ کے ہاتھ سے دانہ کھانے کے عادی تھے وہ چونچیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ آپ کی لائبریری کی کتابوں کو آپ کے وجود کی خوشبو جو عزت وتوقیر ومعنی دیاکرتی تھی وہ بھی آپ اپنے ساتھ ہی لے گئے، چوپال کے ساتھی اورڈیرہ اسماعیل خان جس کو آپ اپنا دوسرا گھر کہتے تھے وہاں کے دوست آپ کی جدائی میں کہتے ہیں حامد سراج تیرے یارانِ چمن تو تیری جدائی میں ’’رُل‘‘ گئے۔ وہ جورات میں چپکے سے کوئی بات لکھتا ،محبت میں بھیگی ایک نصیحت لکھتا ،کبھی آرکسڑا کی تصویر میں گلاب کے ہمراہ وہ کتاب رکھتااور کبھی چراغ جلا کے دعائیں دیتا تھا۔ یارانِ چمن اب انہی پیغامات کو اداس آنکھوںسے ڈھونڈتے ہیں۔اب حامد سراج کے پیام کا جگنو ان کی قبر سرہانے بجھ گیاہے۔مجھے یاد ہے حامد سراج نے لکھا تھا ’’یارانِ چمن بہت تھک گیا ہوں اب کپکپاتے ہاتھوں سے کچھ تحریر نہیں ہوتا‘‘۔حامد سراج صاحب آپ نے سب کی روح گھائل کردی، ہمارے اندر درد کا چشمہ پھوٹ نکلاہے اب تو دکھ بھرے موسم کا آغاز ہوچکا اے نامہ بَرنویدِ بہار نہ دے، وہ تواداس لمحوں گو ترنم دیا کرتے تھے اب اداس لہجے کون سنے گا ؟درد کا درماں کون کرے گا؟حامد سراج صاحب ایسے کہانی کار تھے کہ جو کہانی کا خاکہ تیار کرنے کیلئے نہ لفظوں سے آرائش وتزئین کا کام لیتے نہ بے نقد استعارے اور جزیات تلاش کرتے نظر آئے نہ کسی نظریہ کے قیدی تھے نہ کسی ابہام کا شکار، گفت وشنید پہ ایسے ملکہ رکھتے کہ سننے والا گم ہوکے رہ جاتا، سادھی سی شلوار قمیض پہنے ان کا وجود اندر سے مخملیں بستر پہ گائو تکیے لگائے شمع دان میںاپنی فِکر اور فَقر کی لَو جلاتا۔ ان کے قلم سے تاروں کی مانند لفظ نکلتے وہ قرطاسِ ادب پہ انہیں پروئے جاتے، وہ ایسے کہانی کہار تھے کہ کہانی ان کا خود پیچھا کرتی کہ یارانِ چمن کے حامد سراج مجھے لکھو،مجھے بیان کرو اور میرے درد بانٹوورنہ میرے دکھ بانجھ پن کا شکار ہوجائیںگے یاپھر ان کا روپ دھار کر جنگلوںمیں نکلے جائیںگے۔وہ جو بوند بوند امرت تھا، محبت و شفقت تھا، فَصیلِ ادب پہ رکھا اک افسانہ ، صبر وشکر کامنبع، وہ گل مہر وہ گلاب کلی، وہ سب کا دوست سب کی سہیلی ،وہ دلِ بے قرار کی بے کلی، گئی رتوں سے تھا جس کو پیار وہ غمخوار وغم گسار نہیں رہا ۔اس کے جانے سے بساطِ بزم ہی الٹ گئی۔