’’وہ مجھے بے سوال چھوڑ گیا‘‘
درد‘ ہجر‘ غم دوراں اور غم جاناں کو موضوع سخن بنانے والا شاعر جون ایلیا ذات میں اترنے اور خود کی تلاش کا فن جانتا تھا۔ آٹھ نومبر کو ہم سے بچھڑنے والا شاعر درحقیقت شاعری کی صورت میں کئی سوال چھوڑ گیا اور سوال تو یہ ہے کہ یہ انسان کے لبادے میں کون ہے۔ انسان تو بہت پہلے بچھڑ گیا۔ انتظار حسین نے کہا کہ دو انسانوں نے اس خوف سے کہ وہ اپنی شناخت نہ کھودیں۔ ان میں سے ایک انسان نے اپنے گلے میں سرخ دھجی باندھ لی کہ وہ اپنی پہچان برقرار رکھ سکے۔ جب دونوں سو کر اٹھے تو سرخ دھجی دوسرے نے بھی گلے میں باندھ لی۔ یہاں سے شناخت کا مرحلہ شروع ہوا اور وہ دونوں سوچنے لگے کہ میں کون ہوں اور دوسرا کون ہے۔ جون ایلیا بھی اسی شخص کی تلاش میں ہیں جوکہ گم گشتہ ہے کہتے ہیں…؎
ہیں سب ایک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نہیں
جون ایلیا کے ہاں مسلسل تلاش کا سفر کیوں ہے اور انسان خود سے کس وقت بچھڑتا ہے۔ جون ایلیا کی شاعری ان دو سوالوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کا جواب ممتاز مفتی کے ہاں ملتا ہے کہ انسان ایک ہی زندگی میں کتنے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی ایک محرک اس سفر کو بے معنی بنا دیتا ہے اور انسان زندگی کے چوراہے پر کھڑا یہ سوال کرتا ہے کہ اس نے سفر کا آغاز کہاں سے کیا تھا اور اس کو کہاں جانا ہے اور وہ محرک تو جدائی‘ ہجر اور تنہائی کا بھی ہو سکتا ہے اور ذات میں اترنے والے اندوہناک غم کے سلسلہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ جون ایلیا لکھتے ہیں کہ
بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں یہ ایک عام خبر ہے مجھ میں
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
جون ایلیا کی شاعری کو یہ طرۂ امتیاز حاصل ہے کہ وہ موڈ‘ مزاج اور مرضی کے تابع ہیں اور اسی کے تحت وہ صدیوں کا سفر لمحوں میں اور بسا اوقات لمحوں کے سفر میں صدیاں لگا دیتے ہیں اور صدیوں کا سفر تو بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے۔
آپ اب پوچھنے کو آتے ہو
دل میری جان مر گیا کب کا
ان کا ایک اور شعر ہے
تو مجھے ڈھونڈ میں تجھے ڈھونڈوں
کوئی ہم میں سے رہ گیا ہے کہیں
وہ اس دنیا کے باسی ہیں جہاں خیر اور شر کی جنگ میں خیر ناپید ہو رہا ہے۔ منفی رویئے معاشرے کا المیہ ہیں اور ان منفی رویوں سے بچنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی سے سبھی کو خطرہ ہے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
محبوب کی کج ادائیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شاعری میں بے ساختگی اور الہڑ پہن درحقیقت شعر کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے
تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
میں کوئی بات کہنے آیا تھا
پنکھڑی‘ گلاب اور ناز و انداز سے مبرا ہوکر وہ بے جھجک اپنی کیفیات کا اظہار کر دیتے ہیں۔
شرم‘ دہشت‘ جھجک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی
آپ‘ وہ‘ جی‘ مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتی
جون ایلیا نے شاعری کا جو شہر بسایا ہے اس میں ذات کے سفر سے لیکر ذات میں ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تنہائی اور ویرانی کو نئے پیرہن سے بیان کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک وہ اثاثہ ہے کہ جو شاعری کو بہترین راہیں فراہم کر سکتا ہے۔
میں بھی خود سے ہوں اب جواب طلب
وہ مجھے بے سوال چھوڑ گیا
٭…٭…٭