’’بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا‘‘
المیر ٹرسٹ لائبریری گجرات کے انچارج و بانی عارف میر ایڈووکیٹ سے میرے دیرینہ مراسم اور ایک ادبی رشتہ ہے۔ بارہ ہزار کتب پر مشتمل یہ لائبریری میر صاحب نے اہلِ علم کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ تحقیق کے لیے کئی اہلِ علم اور طلباء و طالبات اس لائبریری سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ میر صاحب نے جناب پروفیسر شریف کنجاہی اور حامد حسن سید صاحب کے حکم پر یہ نیک کام شروع کیا تھا۔ پروفیسر شریف کنجاہی میر صاحب سے دلی شفقت و رابطہ رکھتے تھے۔ میر صاحب بھی شریف کنجاہی صاحب سے انتہائی عقیدت رکھتے یہاں تک کہ ان کے جُوتے سیدھے کرنا بھی سعادت سمجھتے چند روز قبل میر صاحب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو انہوں نے ا یک کتاب دی اور فرمایا اس پر تبصرہ بھی کر دیں۔ کتاب کو دیکھا پڑھا تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کتاب 368 صفحات پر مشتمل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں پر جس قدر مظالم ڈھائے جاتے ہیں یہ بھی ایک مشرقی اسلامی معاشرے میں بسنے والی بیٹی کی درد بھری داستان ہے۔ کتاب کی مصنفہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،شاعرہ، افسانہ نگار اور ماہر تعلیم ہے جس نے اپنے ہی گھر میں اپنی ذات پر ہونے والے مظالم کی دل کھول کر داستان رقم کی ہے۔ لکھتی ہیں کہ ’’اس کتاب میں جو کہانی میں لکھنے جا رہی ہوں…یہ کہانی میری اپنی کہانی ہے۔ میرے تن پر ستنے اور میرے من میں بسنے والی ایک دکھ بھری المناک کہانی مصنفہ کا والد ایک سکول ٹیچر تھا۔ بیٹی کے وجود سے ہی متنفر تھا۔ جب روبینہ (مصنفہ) پیدا ہوئی تو باپ کو انتہائی صدمہ ہوا، لکھتی ہیں کہ وہ میرا ایک ایسے بدقسمت اور کٹھور گھرانے سے تعلق ہے جہاں بیٹیوں، بہنوں اور مائوں سے شدید نفرت کی جاتی ہے بیٹی خواہ کتنی تعلیم یافتہ ، منکمر المزاج اور نیک سیرت ہو اسے محبت توجہ ا ور شفقت سے محروم رکھا جاتا ہے‘‘ مصنفہ بتاتی ہیں کہ پیدائش سے لے کر اب تک میرے ساتھ میرے والدین بھائیوں حتیٰ کہ خاوند کی طرف سے ہمیشہ ظلم و ستم ، نفرت و حقارت ہی روا رکھا گیا۔ باپ نے گجرات شہر میں کئی پرائیویٹ ادارے ’’شوکت سکولز‘‘ کے نام سے بنائے۔ مصنفہ نے اس کام میں شب و روز باپ کا ساتھ دیا تینوں بھائی جاہل، گنوار تھے۔ جب جائیداد کے بٹوارے کا وقت آیا، باپ نے سارا کچھ بیٹوں ا ور ا ن کی بیگمات کے نام کرا دیا اور میں جو کہ ساری زندگی بچپن سے لے کر والدین کی وفات تک ان کا ساتھ دیتی اور خدمت بجا لاتی رہی ، مجھے ہمیشہ جائیداد کے علاوہ پیار و شفقت سے بھی محروم رکھا جاتا۔ جائیداد کے لیے بھائیوں نے ماں باپ کو باقاعدہ مارا پیٹا اور ان پر تشدد سے بھی گریز نہیں کیا اور مصنفہ پھر بھی والدین کو اپنے گھر لے آتی اور ان کا علاج وغیرہ کراتی ہے۔ بھائیوں کی طرف سے بھی والدین کے علاوہ مصنفہ پر بھی طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ جعلی اور جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک سچی کہانی ہے۔ جس جرأت و ہمت سے مصنفہ نے اپنی آپ بیتی لکھی ہے وہ درحقیقت جہاد کے مترادف ہے۔ معاشرے میں نام نہاد معزز گھرانوں میں آج بھی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ عورتوں کو جائیداد میں شرعی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ویسے تو ہم خوود کو مسلمان کہتے ہیں۔ خاتم النبینؐ کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں جنہوں نے عورت کو ماں بیٹی بہن بیوی بلکہ ہر روپ کو انتہائی مقدم سمجھا اور ان کے حقوق بیان فرمائے مگر ہمارے معاشرے میں آج اکیسویں صدی میں بھی عورت اسلام کی طرف سے ملنے والے ان حقوق سے محروم ہے۔ ضلع گجرات میں مصنفہ پہلی نڈر ، بہادر خاتون ہے جس نے اپنی آپ بیتی منظر عام پر لا کر معاشرے کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی شادی کے وقت بیٹی سے نہیں پوچھا جاتا۔ وہ لکھتی ہیں کہ میری دو شادیاں ہوئیں مگر ایک بار بھی میری مرضی معلوم نہیں کی گئی۔ مصنفہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی مگر اپنے ہی گھر والوں میں اجنبی اور ملازمہ کی حیثیت سے جوان ہوئی۔ ماں کی طرف سے وقتی محبت ملتی وہ بھی باپ سے چھپ چھپا کر ’’بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا‘‘ ۔ کتاب کا انتساب بھی ’’ان بدنصیب بیٹیوں کے نام جو والدین کی محبتوں سے محروم ہیں اور اپنے بیٹے…حسان خالد کے نام ہے۔ ظالم بھائیوں کی طرف سے مصنفہ کے بیٹے حسان خالد پر بھی طرح طرح کے ستم ڈھائے گئے اور آج بھی وہ فکر مند ہیں کہ ان کے نام نہاد بھائی اُن کے بیٹے کو کوئی تکلیف نہ پہنچا دیں۔ نہ ہی ماں باپ کی طرف سے حسن سلوک ، نہ بھائیوں کی طرف سے پیار اور نہ خاوند کا حسن سلوک، یہ ہے ہمارا اسلامی معاشرہ۔ یہ کسی عام عورت کی کہانی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھنے والی ایسی صنف نازک کی جو لمحہ بہ لمحہ اپنوں کے ظلم کا نشانہ بنتی رہی مگر ہمت نہیں ہاری اور آخر میں بقول مصنفہ ’’…آج سے صدیوں پہلے لڑکیوں کو زمین میں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا مگر آج فرق صرف یہ ہے، دفن اب بھی کیا جاتا ہے لیکن طریق کار بدل گیا ہے۔ حیات تڑپ تڑپ کر سِسک سِسک کر گزرتی ہے۔ منزل پر پہنچ کر ملتی ہیں تو صرف…تہمتیں اور الزامات…؟
؎گلستان کو لہو کی ضرورت جب پڑی
قتل پہلے ہی گردن ہماری کی ۔
اُٹھا کبھی دھواں نہ کبھی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ
٭…٭…٭