غداری کیس: مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا، وزارت قانون ریکارڈ پیش کرے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلا م آباد، لاہور(وقائع نگار، وقائع نگار خصوصی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کا فیصلہ روکنے کے لیے مشرف اور وزارت داخلہ کی درخواست پر وزارت قانون کو تمام ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پرویز مشرف کواشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے وکیل کو دلائل سے روک دیا، سماعت آج تک ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پہلے ہم وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت کریں گے۔ وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے بولنے کاموقع دیا جائے۔ جیف جسٹس نے ریمارکس دیے پہلے ہمیں وزارت داخلہ کی درخواست سننے دیں، آپ بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسارکیا سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کیا کہتی ہے؟ کیاآپ سپریم کورٹ کے آرڈرسے واقف ہیں؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ نہیں، مجھے سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کا علم نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اس وقت ٹریبونل کس کا ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ، جسٹس نظر احمد اور جسٹس شاہد کریم ٹریبونل میں ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا اگرآپ کو کیس کے حوالے سے نہیں پتہ توسماعت کیسے کریں گے ؟جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیا کہ کیا کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ میں تمام ریکارڈ کنفرم کر کے عدالت کو آگاہ کروں گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا سابق صدر عدالتی مفرور ہیں، وزارت قانون سے تمام ریکارڈ منگوایا جائے۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے مشرف کی طرف سے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف دائر درخواست پر عائد اعتراضات ختم کر دیئے اور درخواست کوقابل سماعت قرار دے دیا۔ عدالت نے وزارت قانون و انصاف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور سمری کل طلب کر لی جبکہ معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کر لیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی کی خبر ہے کہ اسلام آباد میں بھی کوئی درخواست دائر ہوئی ہے۔ جس پر خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے وہ درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی ہے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ جو نظرثانی کی درخواست ہے اس میں آپ درخواست کیوں نہیں دائر کرتے؟ اس میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہدایات دے رکھی ہیں۔ اس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ جب پرویز مشرف پاکستان آئیں گے چاہے جس شہر میں بھی لینڈ کریں سب سے پہلے ٹربیونل کے فیصلے کا سامنا کریں گے۔ ٹربیونل یا خصوصی عدالت خود ہی غیر قانونی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر چیز میں ڈائنامکس بدلتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ ٹربیونل قانون کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ آپکی ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر یہ عدالت کیسے سماعت کر سکتی ہے؟ بھارتی سپریم کورٹ نے 2017ء میں اپنے حکم پر نظر ثانی کی کیونکہ کسی کا بنیادی حق متاثر ہوا تھا۔کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ اسے سارا قانون آتا ہے تو وہ بڑی غلط فہمی میں ہے۔ قانون مسلسل پڑھنے سے آتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے کیسز آتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ہیں؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مشرف ٹرائل عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے۔