غداری کیس: خصوصی عدالت کو آج فیصلہ سنانے سے روکدیا گیا، مشرف کا موقف بھی سنا جائے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلا م آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک نیا پراسیکیوٹر یا پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے خصوصی عدالت کو ملزم کے وکیل اور پراسیکیوٹر کو سننے کے بعد فیئر ٹرائل کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایات جاری کر تے ہوئے معاملہ نمٹا دیا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا ہدف عدلیہ تھی، اکتوبر1999 کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا، آپ اس حوالے سے الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ آپ کو تو آئین سے اصل انحراف کی شکایت داخل کرانی چاہیے تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا اس متعلق فیصلہ نہیں ہوا۔ ابھی استدعا یہ ہے کہ خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکا جائے، خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں ہوئی نہ ہی شکایت مجاز فرد کے ذریعے داخل کرائی گئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے آپ کو اتنے سال بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں۔ اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کررہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹریبونل کو جا کر بتائیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے آپ کہہ رہے ہیں کہ غداری کیس چلانے کی درخواست بھی غلط تھی اور ٹرائل کا فورم بھی۔ سیکرٹری قانون نے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق نوٹیفکیشن اور اوریجنل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ سے منظوری کے بعد ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا وزارت داخلہ درخواست میں کہہ رہی ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں جبکہ وزارت قانون کا ریکارڈ اور آپ کے دلائل بتا رہے ہیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست ہے۔ انہوں نے کہا پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاق نے ایک سال سے پراسیکیوشن ٹیم کے نئے سربراہ کی تقرری نہیں کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اس کا تو یہی مطلب ہے کہ آپ پرویزمشرف کے خلاف کیس چلانا ہی نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا ایک شخص جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہوچکا ہے۔ ہم نے اس کے فیئر ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا پراسیکیوشن ٹیم کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں دلائل غیرقانونی تھے، خصوصی عدالت نے پراسیکیوشن ٹیم کے تقررکا موقع ہی نہیں دیا۔ پرویزمشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا انہیں پرویزمشرف کی پیروی سے روک کر دفاع کے لیے ریاست کی طرف سے نیا وکیل دیا گیا۔ اگراشتہاری ملزم کو کوئی دوسرا وکیل دیا جا رہا ہے تو مجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں؟ عدالتی استفسار پر بتایا کہ پرویزمشرف بیمار ہیں، ان کی ذہنی اور جسمانی حالت ایسی نہیںکہ اسکائپ پر ویڈیو بیان رکارڈ کرا سکیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا جب ملزم کی مرضی کے وکیل کو نہیں سنا جارہا تو فیئر ٹرائل تو وہیں کمپرومائز ہوگیا، میرا کیس ہی یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ اس جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہہ بلند ہوا۔ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے بھی روک دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک نیا پراسیکیوٹر یا پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرے جبکہ خصوصی عدالت کو ملزم کے وکیل اور پراسیکیوٹر کو سننے کے بعد فیئر ٹرائل کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایات جاری کر دیں ہیں۔